خبریں/تبصرے

32 گرفتار طلبہ کوٹ لکھپت جیل منتقل: آج مقدمے کی سماعت ہو گی، 4 رہا

حارث قدیر

لاہور میں نجی جامعات کے مالکان کی ایما پر گرفتار کئے گئے طلبہ کو کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ آج لاہور کی مقامی عدالت میں طلبہ کی درخواست ضمانت پر سماعت ہو گی۔ 28 جنوری کو گرفتار کئے گئے 5 طالبعلم رہنماؤں میں سے 4 کو ہفتہ 30 جنوری کو پولیس نے خود عدالت میں بیان دیکر رہا کر دیا جبکہ زبیر صدیقی بدستور حراست میں ہیں۔

لاہور سمیت پنجاب کی مختلف جامعات کے طلبہ گزشتہ کئی روز سے آن لائن امتحانات کے انعقاد کے مطالبے کے گرد احتجاج کر رہے ہیں۔ 26 جنوری کو یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب اور یو ایم ٹی میں احتجاج کرنے والے طلبہ پر یونیورسٹی گارڈز اور پولیس نے لاٹھی چارج کیا جس کے نتیجے میں متعدد طلبہ زخمی ہوئے۔ بعد ازاں 100 معلوم اور 500 نامعلوم طلبہ کے خلاف مقدمہ درج کر کے 36 طلبہ کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

گرفتار ہونے والے 36 طلبہ کو عدالت نے تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔ ہفتے کے روز انہیں کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا جبکہ آج پیر کے روز گرفتار طلبہ کی درخواست ضمانت پر سماعت ہو گی۔

ادھر گرفتار طالبعلم رہنما زبیر صدیقی کو ضمانت قبل از گرفتاری کروانے کے باوجود ساتھیوں سمیت گرفتار کیا گیا تھا۔ انکے دیگر 4 ساتھیوں ثنا اللہ امان، سلمان سکندر، حارث احمد خان اور علی اشرف کو رہا کر دیا گیا لیکن زبیر صدیقی تاحال زیر حراست ہیں۔ زبیر صدیقی کی درخواست ضمانت پر بھی آج ہی سماعت ہو گی۔

واضح رہے کہ لاہور اور اسلام آباد سمیت پنجاب کی مختلف جامعات کے طلبہ آن لائن امتحانات کے انعقاد کیلئے احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اسلام آباد کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (این ڈی یو)، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ)، بحریہ یونیورسٹی اور ایئر یونیورسٹی کی انتظامیہ نے طلبہ کے مطالبات مسترد کرتے ہوئے آج پیر سے آن کیمپس امتحانات کے انعقاد کا اعلان کر رکھا ہے جبکہ طلبہ نے امتحانات کا بائیکاٹ کر کے صبح 7 بجے سے ہی شاہین چوک میں احتجاج شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

این ڈی یو، نسٹ، بحریہ اور ایئر یونیورسٹی کے طلبہ کی ایکشن کمیٹیوں اور راولپنڈی اسلام آباد کی طلبہ ایکشن کمیٹی نے مشاورت کے بعد آج سے دوبارہ احتجاج شروع کرنے اور آن کیمپس امتحانات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

راولپنڈی اسلام آباد طلبہ ایکشن کمیٹی کے رہنما عمر عبداللہ خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہاہے کہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی انتظامیہ کی طالبعلموں کے ساتھ نا انصافیاں عروج پر ہیں۔ بالخصوص اسلام آباد کی کچھ جامعات میں طلبہ کو بھی فوجی ڈسپلن کے تحت احکامات کے تابع رکھنے اور جبر کے ذریعے ہر حکم ماننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ طلبہ کسی بھی معاشرے کی سب سے باشعور پرت ہوتے ہیں۔ لاکھوں روپے فیسیں دیکر تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو جبر اور طاقت کے ذریعے سے دبانے کی کوشش کرنا انتہائی شرمناک عمل ہے۔

انکا کہنا تھا کہ طلبہ کے مطالبات جائز ہیں۔ اگر تعلیم آن لائن دی گئی ہے تو امتحانات بھی آن لائن ہی لئے جانے چاہئیں۔ ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ آن لائن تعلیم دینے کی اہلیت اور صلاحیت ان جامعات کے پاس نہیں ہے اور نہ ہی اس ریاست کے پاس وہ انفراسٹرکچر ہے کہ جس کے ذریعے سے آن لائن تعلیم دی جا سکے۔ اس وقت طلبہ کے مطالبات کو تسلیم کئے بغیر جامعات اور ایچ ای سی نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور اب آن لائن تعلیم دینے کے بعد آن لائن امتحانات لینے کیلئے ان کے پاس کوئی میکنزم ہی موجود نہیں ہے اور ان کا خیال ہے کہ آن کیمپس امتحانات لئے جائیں اور بڑے پیمانے پر طلبہ کو فیل کر کے اضافی فیسیں وصول کی جائیں۔ اب یہ ظلم مزید نہیں چلے گا، طلبہ ملک بھر میں اس نا انصافی کیخلاف منظم ہو رہے ہیں اور اپنے مطالبات کی منظوری تک کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔