سوشل

آج کی ویڈیو: ڈالفن پولیس کی غنڈی گردی

سوشل ڈیسک | عمران کامیانہ

ہم آج روزنامہ جدوجہد کی ویب سائٹ پر نیا سلسلہ شروع کر رہے ہیں جس میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایسی ویڈیوز، جو کسی سماجی مسائل کی نشاندہی کرتی ہیں، کو زیرِ بحث لائیں گے۔

ہماری آج کی ویڈیو، جو ہم نے ضمیر حسین صاحب کی فیس بک وال سے ’چرائی‘ ہے، ڈالفن پولیس کی غنڈی گردی پر مبنی ہے۔ یہ سی سی ٹی وی فوٹیج ہے جو لاہور یا فیصل آباد یا پنجاب کے دوسرے کسی شہر کی ہو سکتی ہے جہاں ڈالفن پولیس موجود ہے۔ ویڈیو میں ڈالفن پولیس کے اہلکار ’احترام رمضان آرڈیننس‘ کا نفاذ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اب یہ ”نفاذ“ کس طرح سے ہو رہا ہے وہ آپ خود دیکھ سکتے ہیں۔

یہاں دو سوال پیدا ہو تے ہیں۔ پہلا یہ کہ قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے کے اہلکاروں کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ خود ہی منصف بن کے موقع پر سزا بھی دینے لگیں۔ یقینا ان کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے لیکن یہ بتانے کی ضرورت بھی نہیں ہے کہ پاکستان میں یہ روز مرہ کا معمول ہے۔ کیونکہ انصاف کا نظام اتنا پیچیدہ، بدعنوان اور مہنگا ہے کہ کوئی عام انسان ایسی ناانصافی کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اور صرف پولیس ہی نہیں ساری سرکاری مشینری کا عام شہریوں سے یہی رویہ ہے۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ ملک میں جمہوریت کے استحکام اور دوام کے بہت شادیانے بجائے جاتے ہیں۔ لیکن ایک جابر اور خونی آمر کے مسلط کردہ رجعتی قوانین آج بھی کیوں نافذ العمل ہیں۔ دنیا میں مسلمان اکثریتی آبادیوں والے درجنوں ممالک موجود ہیں لیکن ایسے قوانین کسی ملک میں نظر نہیں آتے۔ ہزارہا لوگ ان قوانین کا شکار ہو کے اپنی زندگیوں تک سے ہاتھ دھو چکے ہیں لیکن کسی نام نہاد جمہوری رہنما میں انہیں چھیڑنے تک کی جرات نہیں ہے۔

اس ملک میں نظام عدل کا یہ حال ہے کہ کچھ دن پہلے ایک واقعہ منظر عام پر آیا جس میں سگریٹ پان کی چھوٹی سی دوکان کرنے والا ایک غریب انسان احترام رمضان آرڈیننس کی خلاف ورزی کے جرم میں پانچ دن کے لئے جیل گیا اور پورے پانچ سال بعد باہر آیا۔ اگر اُس کے پاس موٹا مال ہوتا تو قوی امکان یہی ہے کہ پانچ سال کے لئے بھی جاتا تو پانچ دن میں واپس آ جاتا۔ بہرحال جج صاحب کی مہربانی کہ انہوں نے پانچ سال حبس بے جا میں رہنے والے اس غریب سے باقاعدہ معافی مانگی۔ ویسے ان صاحب کو بھی شکر ادا کرنا چاہئے ورنہ یہاں تو ایسے کیس بھی ہیں کہ لوگوں کو سزائے موت دے دئیے جانے کے بعد باعزت بری کر دیا جاتا ہے۔ جان بچی سو لاکھوں پائے!


آپ بھی سماجی مسائل کو اجاگر کرنے والی ویڈیوز ہمیں ارسال کر کے سوشل ڈیسک کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اپنی ویڈیوز ہمیں یہاں ارسال کریں۔


Social Desk
+ posts
Imran Kamyana
Website | + posts

عمران کامیانہ گزشتہ کئی سالوں سے انقلابی سیاست اور صحافت سے وابستہ ہیں۔ سیاسی معاشیات اور تاریخ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔