حارث قدیر
رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں پاکستان کا وفاقی بجٹ خسارہ 1.4 ٹریلین روپے تک پہنچ چکا ہے اور نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) کے تحت مرکز اور صوبوں کا اجلاس بھی رواں ہفتے منعقد ہو رہا ہے۔ ایکسپریس ٹربیون میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے جولائی تا دسمبر کے عرصہ کے دوران صرف قرضوں پر سود کی ادائیگی ہی اخراجات کا واحد مطمع نظر رہی جو 15 فیصد اضافے کے بعد 1.5 ٹرلین روپے تک پہنچ چکی ہے۔ آمدن اور اخراجات کے درمیان فرق کو پر کرنے کیلئے مزید قرض لینے کی وجہ سے قرضوں کی ادائیگی بھی بلند سطح پر رہی ہے۔
وفاقی بجٹ خسارہ 1.4 ٹریلین روپے یا جی ڈی پی کے 3.1 فیصد رہا ہے جو معیشت کے حجم کے لحاظ سے گزشتہ مالی سال کی سطح پر ہی رہا لیکن درحقیقت یہ گزشتہ مالی سال سے زیادہ ہے۔ رواں مالی سال کیلئے حکومت نے وفاقی بجٹ خسارے کا ہدف 3.43 ٹریلین روپے یا جی ڈی پی کا 7.5 فیصد مقرر کر رکھا ہے۔
جولائی سے دسمبر تک وفاقی حکومت نے 1.2 ٹریلین روپے کا قرض حاصل کیا جبکہ وفاقی حکومت این ایف سی کے تحت صوبوں کو ملنے والے زیادہ حصہ کو اس کی ذمہ دار قرار دیتی ہے۔ یاد رہے این ایف سی کا پہلا اجلاس جمعرات کو منعقد ہو گا جس کی صدارت وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کرینگے اور تمام صوبائی وزرائے خزانہ شرکت کریں گے۔
ایکسپریس ٹربیون کے مطابق این ایف سی اجلاس کے دوران مرکز اور صوبوں کی حکومتیں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ مذاکرات کے دوران طے پانے والے نئے اہداف کی روشنی میں اپنی مالیاتی صورتحال کو زیر بحث لائیں گے۔
واضح رہے کہ نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) مرکز اور صوبوں کے مابین مالی وسائل کی تقسیم کا فیصلہ کرتا ہے۔ مرکز اور صوبوں کے مابین گزشتہ 6 سالوں سے نئے این ایف سی ایوارڈ کو لے کر ڈیڈلاک قائم ہے۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ پر 2010ء میں اتفاق کیا گیا تھا جو 2015ء میں ختم ہو گیا تھا اور 8 ویں ایوارڈ پر اتفاق رائے کے فقدان کی وجہ سے ہر سال صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کو توسیع دی جاتی ہے۔ وفاق کی جانب سے صوبوں پر دباؤڈالا جا رہا ہے کہ وہ اپنے مالی حصص کا کچھ حصہ ترک کر دیں یا اخراجات کی اضافی ذمہ داریاں لیں۔
ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت مرکز کو تقسیم پول سے 42.5 فیصد حصہ ملا تھا جبکہ باقی 57.5 فیصد حصہ متعدد فارمولوں کے تحت صوبوں کے مابین تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلی ششماہی کے دوران ایف بی آر نے ٹیکسوں کی مد میں 2.2 ٹریلین روپے وصول کئے اور 1.3 ٹریلین یا 57.7 فیصد صوبوں کے حصے میں چلے گئے۔ وفاقی ریونیو دو بڑے شعبوں پر ہونے والے اخراجات کی وجہ سے کم ہوا، جن میں 1.5 ٹریلین روپے قرضوں پر سود کی ادائیگی اور 505 ارب روپے دفاعی اخراجات پر صرف ہوئے حالانکہ دفاعی اخراجات گزشتہ مالی سال سے اب بھی کم رہے ہیں۔
مجموعی طور پر جولائی سے دسمبر کے عرصہ میں وفاقی حکومت کے اخراجات 7 فیصد اضافے کیساتھ 3.2 ٹریلین روپے ہو گئے جبکہ گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں اخراجات میں 205 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
دفاعی اخراجات 505 ارب روپے رہے جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ سے 4.7 فیصد یا 25 ارب روپے کم تھے۔ حکومت نے رواں مالی سال میں دفاعی ضروریات کیلئے 1.289 ٹریلین روپے مختص کر رکھے ہیں۔
گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں ترقیاتی اخراجات میں 19 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرا م کے تحت عارضی ترقیاتی اخراجات گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ کے مقابلے میں محض 224 ارب روپے رہے ہیں جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ کے مقابلے میں 52 ارب روپے کم ہیں۔ ترقیاتی بجٹ کی یہ لاگت سالانہ ترقیاتی بجٹ کے تخمینہ سے صرف 34 فیصد تھی۔ ایف بی آر کو پہلی ششماہی میں 2.2 ٹریلین روپے ٹیکس وصول ہوا، جو مجموعی طور پر 124 ارب روپے یا 6 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔ نان ٹیکس ریونیو کم ہو کر 855 روپے رہا جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 2.4 فیصد کم ہے۔ سود کی ادائیگیوں کو چھوڑ کر پرائمری بیلنس 287 ارب روپے یا جی ڈی پی کا 0.6 فیصد رہا ہے۔