حارث قدیر
میانمار میں فوجی آمریت کے خلاف اتوار کے روز مسلسل 9 ویں روز لاکھوں مظاہرین نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا، مختلف محکمہ جات کے سرکاری ملازمین نے ہڑتال شروع کر دی ہے جس کی وجہ سے فوجی حکمران نظام حکومت چلانے سے معذور ہو گئے ہیں۔ ادھر جاپان میں ہزاروں افراد نے میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف خاموش احتجاجی مارچ کیا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ملک کے کچھ حصوں میں عملے نے کام کرنے سے انکار کر دیا ہے جس کے بعد ٹرینیں چلنا بند ہو گئی ہیں۔ فوجی حکمرانوں نے بجلی گھروں پر فوج تعینات کر دی ہے۔ یکم فروری کو ہونے والی فوجی بغاوت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز ڈاکٹروں نے کیا تھا جو اب دیگر سرکاری محکمہ جات میں بھی پھیل چکی ہے۔ فوجی حکمرانوں نے سرکاری ملازمین کو ہڑتال ختم نہ کرنے کی صورت سخت کارروائی کی دھمکی دی ہے۔ بڑے پیمانے پر ملازمین کی گرفتاریاں بھی کی گئی ہیں اور ہفتہ کے روز لوگوں کو حراست میں لینے اور چھاپہ مار کارروائیوں کے اختیارات بھی فوج کو تفویض کئے گئے ہیں۔
اتوار کے روز ہونے والے مظاہروں میں ریلوے کے سینکڑوں مزدور بھی ینگون کے مظاہروں میں شریک ہوئے۔ پولیس نے شہر کے مضافات میں ریلوے ملازمین کے رہائشی علاقوں میں چھاپے مارے لیکن مظاہرین کے بڑی تعداد میں جمع ہونے کے بعد پولیس ریلوے ملازمین کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئی۔
بین الاقوامی کرائسز گروپ کے میانمار میں مقیم تجزیہ کار رچرڈ ہورسی نے رائٹرز سے گفتگو میں کہا کہ ”بہت سے سرکاری محکمہ جات میں سرکاری امور رک گئے ہیں۔ اس ہڑتال میں بہت سے اہم کاموں کو متاثر کرنے کی صلاحیت ہے۔ فوج انجینئروں اور ڈاکٹروں کی جگہ تو لے سکتی ہے لیکن پاور گرڈ کنٹرولرز اور مرکزی بینکاروں کی جگہ نہیں لے سکتی۔“
دوسری طرف جاپان کے شہر ٹوکیو میں ہزاروں افراد نے میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف احتجاجی مارچ کیا۔ مظاہرین نے بڑی تعداد میں آنگ سان سوچی کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں اور چہروں پر ماسک لگا کر زبان بندی کے نشان بنا رکھے تھے۔
منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ جاپان کا اب تک کا سب سے بڑا مارچ تھا اور اس میں 4 ہزار سے زائد افراد نے حصہ لیا۔ یکم فروری کو ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد جاپان میں متعدد مظاہرے ہوئے ہیں جن میں جاپان میں مقیم میانمار کے باشندوں نے شرکت کی۔