حارث قدیر
میانمار میں فوجی آمریت کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال کئے جانے کے بعد ملک گیر ہڑتال اور مظاہرے پھوٹ پڑے، عام ہڑتال میں شامل افراد کے خلاف ریاستی طاقت کے استعمال کی سخت دھمکیوں، راستے بند کرنے اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کے باوجود کے باوجود میانمار کے سب سے بڑے شہر میں ہزاروں مظاہرین جمع ہو گئے۔ ملک گیر ہڑتال کے مطالبے کے بعد پیر کے روز ملک بھر میں فیکٹریاں، نجی و سرکاری دفاتر اور دکانیں بند کر دی گئیں۔
فوجی حکومت نے سرکاری ٹیلی ویژن پر اتوار کی رات کو ہڑتال کے خلاف سخت گیر اقدامات کرنے کی دھمکی دی تھی۔ خبررساں ادارے اے پی کے مطابق سرکاری اعلان میں کہا گیا تھا کہ ”22 فروری کے دن ہنگامہ آرائی اور انتشار پھیلانے کیلئے لوگوں کو اکسایا جا رہا ہے۔ مظاہرین جذبات نوجوانوں کو ایک ایسی محاذ آرائی کی طرف راغب کر رہے ہیں جہاں انہیں جان کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔“
اتوار کی رات کو فوجی ٹرکوں نے ینگون سمیت دیگرشہروں کی سڑکوں پر مارچ کیا اور ہڑتال کے خلاف انتباہ جاری کیا گیا۔ پیر کے روز ہزاروں افراد دارالحکومت میں جمع ہوئے، کم از کم ایک درجن شہروں اور قصبوں میں مظاہروں کی اطلاعات اور تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئیں۔ 6 شہروں کی سوشل میڈیا پر جاری ہونیوالی تصاویر میں نظر آ رہا ہے کہ لاکھوں افراد ان مظاہروں میں شریک ہوئے۔
ادھر پولیس نے مختلف چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران 200 سے زائد افراد، جن میں زیادہ تر نوجوان شامل ہیں، کو گرفتار کر کے انہیں ایک فوجی اڈے پر بھیجنے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ عام ہڑتال کی یہ کال ’سول نافرمانی موومنٹ‘کی جانب سے دی گئی تھی، یہ گروپ سرکاری ملازمین کی سرکاری امور بند کرنے کی ترغیب بھی دے رہا ہے۔ نقل و حمل سے جڑے سرکاری ملازمین اور وائٹ کالر نوکریاں کرنے والے ملازمین نے ہڑتال کی اپیل پر بھرپور عمل کیا۔
ہفتے کے روز مزاحمتی کی تحریک کو ایک باقاعدہ ڈھانچہ فراہم کرنے اور’بہار انقلاب‘ کے آغاز کیلئے دو درجن سے زیادہ گروہوں کے ذریعے ایک عام ہڑتال کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ واضح رہے کہ میانمار کی فوج نے یکم فروری کو پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے سے روک دیا تھا اور آنگ سان سوچی کی پارٹی کی انتخابات میں فتح کو دھوکہ دہی اور دھاندلی قرار دیکر سول حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ فوج نے ایک سال کے اندر نئے انتخابات منعقد کروانے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
آنگ سان سوچی کی پارٹی نے 2015ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد اقتدار سنبھالا تھا لیکن فوجی جرنیلوں نے اپنے تیار کردہ نئے آئین کے تحت اقتدار میں اپنی شراکت بھی برقرار رکھی ہوئی تھی۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق فوجی حکومت نے 640 افراد کو گرفتار کر کے انہیں سزائیں سنائی ہیں۔