لاہور (جدوجہد رپورٹ) میانمار کے سب سے بڑے شہر ینگون میں فوجی بغاوت کے خلاف اتوار کے روز مسلسل دوسرے دن ہزاروں افراد نے احتجاجی مارچ کیا۔ ملک بھر میں بھی مختلف مقامات پر ہزاروں افراد نے احتجاجی مظاہرے کئے جبکہ 70 سے زائد میڈیکل یونٹس کے ہیلتھ کیئر ورکرز نے بدھ کے روز سے ہڑتال کا اعلان کر تے ہوئے فوجی آمریت کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق انٹرنیٹ اور ٹیلی فون پر پابندی کے باوجود 2007ء کے بعد یہ ملک کے سب سے بڑے مظاہرے تھے۔ مظاہرین نے میانمار کے تجارتی دارالحکومت سمجھے جانے والے شہر ینگون میں سرخ غبارے اٹھا کر مارچ کیا۔ یہ رنگ آنگ سان سوچی کی پارٹی نیشنل لیگ برائے ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی نمائندگی کرتا تھا۔ مظاہرین ”ہم فوجی آمریت نہیں جمہوریت چاہتے ہیں“ جیسے نعرے لگا رہے تھے۔
ہفتے کے روز فوجی بغاوت کے بعد ہونے والے پہلے بڑے مظاہروں میں لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ اتوار کی صبح ینگون کے مختلف اطراف سے آنے والے ہزاروں افراد ہلڈن بستی پر پہنچے۔ مظاہرین نے این ایل ڈی کے پرچم لہرائے اور تین انگلیاں ہوا میں بلند کیں جو فوجی بغاوت کے بعد اب احتجاج کی علامت بن چکا ہے۔
جنوب مشرق میں واقع ساحلی قصبہ مولامائن میں تقریباً 100 افراد موٹرسائیکلوں پر سڑکوں پر نکل آئے جبکہ وسطی میانمار کے منڈالے شہر میں طلبہ اور ڈاکٹرز نے احتجاج کیا۔
سینکڑوں افراد کے ایک اور ہجوم نے جنوب مشرق میں ریاست کیرن کے شہر پیاتھونزو میں پولیس اسٹیشن کے باہر رات بسر کی، جہاں خیال کیا جاتا ہے کہ این ایل ڈی کے مقامی قانون سازوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس اسٹیشن کے باہر موجود لوگ جمہوریت کی حمایت میں ترانے گاتے رہے۔
میانمار میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ تھامس اینڈریوز نے کہا کہ فوج نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے اب تک 160 سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے۔ اتوار کے روز ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ”فوجی جرنیل انٹرنیٹ تک رسائی کو محدود کر کے شہریوں اور بیرونی دنیا کو مزاحمتی تحریک سے اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں ضرورت کی گھڑی میں میانمار کے عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔“