لاہور (جدوجہد رپورٹ) افغانستان میں پرتشدد واقعات کے اضافے کے بعد متحارب فریق دوبارہ مذاکرات کی میز پر واپس آ گئے ہیں اور امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ فریقین تشدد کی کمی پر اتفاق کر سکتے ہیں۔
طالبان کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم نے پیر کی شب ٹویٹ کیا کہ ”مشرق وسطیٰ کے ملک قطر میں بات چیت دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔ ماحول بہت خوشگوار تھا، بات چیت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا اور ابتدائی ایجنڈا جلد طے پا جائیگا۔“
اے پی کے مطابق جب جنوری میں بات چیت اچانک اختتام پذیر ہوئی تو دونوں فریقوں نے ایجنڈوں کیلئے اپنی اپنی خواہش کی فہرستیں پیش کیں۔ اب یہ دونوں فریقوں کا کام ہے کہ وہ اپنی خواہش کی فہرستوں کی جانچ پڑتال کے بعد اس ترتیب سے نمٹنے کیلئے کسی نقطے پر متفق ہو جائیں۔
افغان حکومت، امریکہ اور نیٹو کی ترجیح تشدد کے واقعات میں کمی کیلئے جنگ بندی پر زور دینا ہے اور طالبان نے اس پر بات چیت جاری رکھنے کا کہا ہے لیکن فوری طور پر فائر بندی پر اتفاق نہیں کیا۔ امریکہ فروری 2020ء میں ہونے والے امن معاہدے کا جائزہ لے رہا ہے جو سابق ٹرمپ انتظامیہ نے طالبات کے ساتھ طے کیا تھا۔ معاہدہ کے تحت یکم مئی 2021ء تک افغانستان سے تمام بین الاقوامی افواج کے انخلا پر اتفاق کیا گیا تھا۔ ابھی تک امریکہ اور نیٹو نے کسی بھی فیصلے کا اعلان نہیں کیا ہے۔ افغانستان میں اب بھی 2500 امریکی فوجیوں سمیت ایک محتاط اندازے کے مطابق 10 ہزار فوجی اہلکار و افسر موجود ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ نے افغانستان کے تنازعہ کے سیاسی حل پر زور دیا ہے۔ زلمے خلیل زاد کو برقرار رکھا گیا ہے، جنہوں نے طالبان کے ساتھ امریکی امن معاہدے پر بات چیت کی تھی۔ دوحہ میں مذاکرات کے دوبارہ آغاز کے بعد پاکستان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے مستقل نمائندگوں کی آمد بھی ہو گی۔
پاکستان اب بھی 15 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں واحد حل سیاسی ہے اور اس سے قبل طالبان کو مذاکرات کی میز پر پہنچانے کا سہرا بھی پاکستان کو دیا جاتا ہے۔
ادھر طالبان اور افغان حکومت کے لئے درپیش مسائل کافی سنگین ہیں اور فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا امن معاہدے پر قائم رہنے کیلئے دونوں اطراف اتنا اثرورسوخ ہے جو قائم رہے گا۔ افغان صدر اشرف غنی نے عبوری انتظامیہ کی تجویز ماننے سے انکار کر دیا ہے جبکہ انکے نقادوں نے الزام عائد کیا ہے کہ وہ اقتدار پر قائم رہنا چاہتے ہیں۔
دریں اثنا ایک طالبان عہدیدار نے اے پی کو بتایا کہ ”ہم ایک ’نئی اسلامی حکومت‘ چاہتے ہیں جس میں اشرف غنی شامل نہیں ہونگے۔“ تاہم انہوں نے اس حکومت کے بارے میں تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا اور یہ بھی نہیں بتایا کہ اس میں انتخابات شامل ہونگے یا نہیں۔