لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے ضلع میرپور کی سنٹرل جیل میں قید کشمیری نژاد برطانوی صحافی و سماجی کارکن تنویر احمد مسلسل ’بھوک ہڑتال‘کی وجہ سے شدید علیل ہو گئے ہیں۔ تنویر احمد کی رہائی کیلئے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں قوم پرست اور ترقی پسند تنظیموں کے زیر اہتمام پیر کے روز مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور تنویر احمدکو فی الفور رہا کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
تنویر احمد کشمیری نژاد برطانوی شہری ہیں۔ وہ گزشتہ 16 سال سے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں مقیم ہیں اور مسئلہ جموں کشمیر کے پرامن حل، آزادی اور خودمختاری سمیت پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں شہری حقوق کے سلسلہ میں مختلف سماجی سرگرمیاں کرتے رہے ہیں۔ وہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی 32 تحصیلوں سے 10 ہزار شہریوں پر مشتمل ایک سروے رپورٹ مکمل کرنے کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ اس دوران انہیں متعدد مرتبہ گرفتار بھی کیاگیاتھا۔ سروے رپورٹ کے بعد وہ پیپلز اسمبلی کے نام سے شہری حقوق اور قومی آزادی کی تحریک کو پھیلانے کے سلسلہ میں مختلف سماجی سرگرمیاں کر رہے تھے۔
تنویر احمد کو اگست 2020ء میں ضلع میرپور کی تحصیل ڈڈیال میں واقع ’مقبول بٹ شہید چوک‘ سے پاکستانی پرچم اتارنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ 7 ماہ گزرنے کے باوجود تنویر احمد کی درخواست ضمانت اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ سے بھی مسترد کی جا چکی ہے۔ تاہم سپریم کورٹ نے تین ماہ کے اندر لوئر کورٹ میں مقدمہ کی سماعت مکمل کرنے کی ہدایات جاری کر رکھی ہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود تاحال تنویر احمد کے کیس کی سماعت مکمل نہیں ہو سکی ہے۔ تنویر احمد کے حمایتی اور مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں کے رہنماؤں کا الزام ہے کہ تنویر احمد کے کیس کو لمبا کر کے انہیں بغیر کسی جرم کے سزا دی جا رہی ہے۔
تنویراحمد نے اپنی رہائی کیلئے جیل میں بھوک ہڑتال کر رکھی ہے اور جمعہ کے روز انہیں شدید علالت کی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں سے انکی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد انکی رہائی کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
پیر کے روز راولاکوٹ، تھوراڑ، ہجیرہ، کوٹلی، میرپور سمیت دیگر شہروں اور دیہاتوں میں احتجاجی مظاہرے منعقد کئے گئے اور تنویر احمد کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔ مظاہرین کا موقف ہے کہ تنویر احمد نے کوئی جرم نہیں کیا، انہوں نے پاکستانی پرچم کی توہین نہیں کی اور نہ ہی پرچم کی بے حرمتی کی گئی۔ انہوں نے باعزت طریقے سے پرچم اتار کر اسے طے کیا اورحکام کے حوالے کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں بلا جواز تشدد کا نشانہ بنا کر گرفتار کیا گیا اور ان کے خلاف بے بنیاد مقدمہ درج کر کے ناکردہ گناہوں کی سزا دی جا رہی ہے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ ایک متنازعہ خطہ ہے، جموں کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ہونا باقی ہے اور جب تک جموں کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ہوتا اس وقت تک پاکستانی ریاست کا آئین اور قانون اس خطے پر لاگو نہیں ہو سکتا۔ ماضی میں کئی سیاسی کارکنان پر پاکستانی پرچم نذر آتش کرنے کے الزامات میں مقدمات قائم کئے گئے، گرفتاریاں بھی کی گئیں لیکن انہیں چند ایام میں ہی ضمانت پر رہا کر دیا گیا، جبکہ تنویر احمد نے انتہائی احترام کے ساتھ پرچم اتار کر حکام کے حوالے کیا لیکن ان کے معاملے میں اور طریقہ کار اپنایا جا رہا ہے اور انکو جیل میں ہی قتل کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔
تنویر احمد نے کئی روز تک ڈڈیال میں احتجاجی دھرنا دیا اور مطالبہ کیا کہ مقبول بٹ شہید کے نام سے منسوب یاد گار پر پاکستانی پرچم لگایا جانا مقبول بٹ شہید کے پیروکاروں اور سیاسی ساتھیوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ ابتدائی طور پر مقامی حکام کے تنویر احمد سے مذاکرات بھی ہوئے تھے، جن سے متعلق انتظامیہ اور تنویر احمد نے الگ الگ موقف اپنایا۔ مذاکرات میں دی گئی مبینہ ڈیڈ لائن پوری ہونے پر تنویر احمد نے خود ہی مقبول بٹ شہید کی یادگار سے پاکستانی پرچم اتار کر انتظامیہ کے حوالے کرنے کیلئے جا رہے تھے لیکن انہیں پولیس نے سڑک پر گھسیٹتے ہوئے پولیس وین میں ڈالا اور ایک ساتھی سمیت مقامی تھانے کے حوالات میں بند کر دیا۔ بعد ازاں انکے دوسرے ساتھی کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا لیکن تنویر احمد کی درخواست ضمانت ماتحت عدالتوں، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے مسترد کر دی گئی تھی۔
سیاسی و سماجی رہنماؤں کا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر تنویر احمد کو غیر مشروط رہا کیا جائے، انکا مناسب علاج معالجہ کروایا جائے اور ان کے ساتھ ہونیوالی نا انصافیوں کا ازالہ کیا جائے۔