عافیہ شہر بانو ضیا
2002ء میں جنرل مشرف نے یہ کرتب دکھایا کہ منتخب اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی بڑھا دی۔ اس کرتب کا نتیجہ یہ نکلا کہ گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس میں پاکستان کی درجہ بندی بہت بہتر ہو گئی۔ آج کئی سال گزرنے کے بعد بھی سیاسی شراکت کے کھاتے میں پاکستان اس انڈیکس میں درمیانے درجے پر پایا جاتا ہے، باقی ہر مدمیں ہم تقریباً آخری درجے پر ہیں۔
اس صو رتحال کی ذمہ داری نہ تو جمہوریت پر ڈالی جا سکتی ہے نہ ہی بد عنوانی پر۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں خواتین کی پسماندگی، بالخصوص ان کی معاشی خود مختاری کی راہ میں رکاوٹ، ’کلچر‘کو قرار دیا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عورت کے کام کو سماجی رتبہ نہ دینا، کمیونٹی کے اندر عورت کے کام بارے منفی تاثر اور کام کی جگہ پر خواتین دوست حالات کی کمی عورت کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ عورتوں بارے بد خوئیاں یا پدر سری کنٹرول بارے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ تو کلچر ہے اور اسے کبھی بدلا ہی نہیں جا سکتا۔
کلچر وہ آسان بہانہ ہے جو نالائق اور کام چور سرکاری اہل کار یا سیاستدان پیش کرتے ہیں تا کہ خواتین کو روزگار فراہم کرنے کے لئے جو اقدامات ضروری ہیں، وہ نہ اٹھانے پڑیں۔ ثقافت کے بہانے اس مسئلے سے دامن بچانا یا کسی ایسے میکرو اکنامک معجزے کا انتظار کرنا کہ جس کے بعد خواتین کے لئے خود بخود روزگار کے موقع کھل جائیں گے، درست عمل نہیں ہے۔ تبدیلی تو آ رہی ہے مگر جب اسے ثقافت کے پیمانے میں تولا جاتا ہے تو یہ تبدیلی رکاوٹ کا بھی شکار ہو جاتی ہے اور اسے ماپنا بھی ممکن نہیں رہتا۔
کوئی ایسی کمیونٹی، علاقہ یا خطہ نہیں جہاں عورت کے راستے میں ناقابل عبور دیوار کھڑی ہو۔ غربت کے گھاٹ پر کلچر کو قربان کرتے ہوئے خواتین کنسٹرکشن جیسے مشکل ترین شعبے میں بھی کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے برعکس جب چھوٹے قرضوں کی سکیمیں اور ہوم بیسڈ ورک کی سرپرستی کی جاتی ہے تو درحقیقت اس کلچر کی جڑیں مضبوط کی جاتی ہیں جسے عورت کی ترقی کی رکاوٹ بولا جاتا ہے۔
ماہرین کی لکھی ہوئی، ڈونر فنڈڈ جیسی کئی رپورٹیں آپ کو مل جائیں گی جنہیں دیکھ کر انگریز کا دور یاد آ جاتا ہے جب ہر دستاویز میں اس بات پر زور دیا جاتا تھا کہ ’یہاں کی ثقافتی اور مذہبی رسومات کا خیال‘ رکھا جائے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سالہا سال گزر گئے مگر خواتین ایسے منصوبوں کے نتیجے میں یا تو مرغیاں پال رہی ہیں یا گھر بیٹھی سلائی کڑھائی کر رہی ہیں جبکہ پدر شاہی کا بال تک بیکا نہیں ہو سکا۔ عالمی درجہ بندی پر مبنی مختلف انڈیکس جب جاری کئے جاتے ہیں تو ان میں کئی طرح کے مسائل ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود کچھ تلخ حقائق، جنہیں عالمی ماہرین غیر ضروری طور پر محض اس لئے پیچیدہ بنا دیتے ہیں تا کہ روایتی حل لاگو کئے جا سکیں، بالکل واضح ہو کر سامنے آ جاتے ہیں۔ چند فرد جرم ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں:
اؤل: پاکستانی خواتین کی اکثریت ورک فورس کا حصہ نہیں۔ بیس فیصد خواتین جو ورک فورس کا حصہ ہیں، ان کی اکثریت زرعی شعبے میں کام کرتی ہے (جہاں کم از کم تنخواہ بھی نہیں ملتی) جبکہ باقی ان فارمل اور غیر محفوظ (عموماً مینوفیکچرنگ) شعبے میں کام رکتی ہیں۔
ایسا نہیں کہ خواتین کے لئے سروس سیکٹر زیادہ موزوں ہے۔ وہ اس شعبے میں اس لئے ہیں کہ بڑی تنخواہ والی نوکری کے لئے ان کے پاس مہارت موجود نہیں ہوتی۔ اگر بعض شعبوں میں خواتین نظر نہیں آتیں یا مارکیٹ تک ان کی رسائی نہیں ہو پا رہی تو اس کی وجہ کلچر نہیں۔ وجہ غلط منصوبہ بندی ہے۔
کلچر نے کبھی اس بات سے نہیں روکا کہ زرعی شعبے میں کم از کم تنخواہ کا نفاذ کیا جائے، ان فارمل شعبے کی نگرانی کی جائے، لیبر قوانین (نہ کہ ایم این سی) کو بہتر بنایا جائے اور ایسے طریقہ کار واضع کئے جائیں کہ ریاستی سرپرستی میں زیادہ سے زیادہ خواتین کے روزگار کو یقینی بنایا جائے۔
دوم: جنسی ہراسانی کے خلاف قوانین کو کام کی جگہ پر لاگو کرنے سے پاکستان کا سکور کچھ بڑھ گیا ہے اور عالمی درجے بندی میں پاکستان کی درجہ بندی بلاشبہ بہتر ہو گئی ہے مگر عیارانہ پدرسری حربوں بارے کیا کہئے کہ ان قوانین کی آڑ میں خواتین کو دیگر حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے مثلاً زچگی کے دوران چھٹی، چائلڈ کیئر اور برابر تنخواہ کی بات نہیں کی جاتی۔ جنسی ہراسانی کے قوانین کا مطلب یہ بن گیا ہے کہ مرد مالکان یا کولیگ خواتین سے ’چھیڑ چھاڑ‘ کی عادت پر ذرا قابو پا لیں مگر خواتین کی محنت کا استحصال جاری رکھیں۔
برابر تنخواہ کے علاوہ مناسب و محفوظ سہولتیں، اقلیت سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لئے مثبت اقدامات، سرکاری و نجی سکولوں میں چائلڈ کیئر کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور اس کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانہ ہونا چاہئے۔
سوم: گھریلو مشقت اور خاندان کی دیکھ بھال عام طور پرہم عورتیں کرتی ہیں جبکہ خاندان یا شوہر کی جائیداد اور ملکیت میں ہمارا حصہ نہیں ہوتا۔ یوں عورتوں کی حیثیت گر جاتی ہے۔ جائیداد کے مسئلے پر مذہبی رسومات اس ضمن میں بلاشبہ ایک عنصر ہیں۔ موبائل فون مگر ایک سیکولر معاملہ ہے۔ مرد حضرات جب عورت کی موبائل فون تک رسائی کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کی وجہ کلچر نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عورت کی آزادی کو اپنی مٹھی میں رکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں چونکہ اکثریت کا بینک اکاؤنٹ ہی موجود نہیں۔ ایسے میں موبائل فون مالی خود مختاری اور مالی معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے خواتین کا مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
ایک ’ثقافتی‘ مفروضہ یہ بھی ہے کہ خواتین کی گھریلو معاملات میں کوئی رائے شامل نہیں ہوتی۔ تحقیق کے مطابق کم از کم گھر کے لئے خریدے جانے والے سامان کی بابت ایسا نہیں ہوتا۔ عورتوں کی بات کو اہمیت دیتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کہ عورتوں کو ٹیکنالوجی فراہم کی جائے اور جس طرح عوامی پیمانے پر ووٹر وں کی فہرستیں تیار کی گئیں ہیں، اسی طرح خواتین کے بینک اکاؤنٹ کھولنے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔
چہارم: افزائش آبادی میں کمی آ رہی ہے مگر عالمی سطح پر ابھی بھی یہ شرح بہت زیادہ ہے۔ چائلڈ کیئر کا نہ ہونا یا مانع حمل ادوایات کی عدم فراہمی کا نتیجہ ہے کہ بہت سی خواتین نوکری نہیں کر سکتیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا جائے اور ان کی مہارت و قابلیت میں بھی اضافے کے لئے سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ ان کے کام کے دائرہ کار کو بڑھا کر ان سے فوڈ سکیورٹی، معذور افراد کی دیکھ بھال، معمر افراد کی دیکھ بھال اور پری سکول کی سطح پر جو بچے ہیں انکی دیکھ بھال کا کام بھی لیاجا سکے۔ اس سارے عمل کو احساس پروگرام کے ساتھ جوڑ کر مالی لحاظ سے اسے قابل عمل بنایا جا سکتا ہے۔
جب کلچر کی بحث بیچ میں لائی جاتی ہے تو اس سے خواتین کی تحریک کمزور ہوتی ہے۔یہ دلیل عورتوں کو منظم ہونے والے لیبر حقوق حاصل کرنے سے روکتی ہے۔ جب ریاست اور مرد ’کلچر‘ کی تلوار نیام سے نکالتے ہیں تو وہ نہ صرف آنے والی نسلوں کا مستقبل خراب کرتے ہیں بلکہ عالمی درجہ بندی میں پاکستان کو بھی نیچے لے جاتے ہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ کلچر کا راگ الاپنا بند کر دیا جائے اور نام نہاد ماہرین کی نہ سمجھ میں آنے والی مشکل مشکل تجاویز پر دھیان دینے کی ضرورت نہیں۔ جینڈر سے متعلق پالیسیوں میں انقلابی تبدیلی کے لئے سیاسی فیصلے لینے کی ضروت ہے۔ان پالیسیوں کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس پر ہم آخری پوزیشن کھودیں گے۔
بشکریہ: ڈان