لاہور (جدوجہد رپورٹ) صوبہ خبیر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں پولیس حراست کے دوران مبینہ تشدد سے 14 سالہ طالبعلم شاہ زیب ہلاک ہو گیا ہے۔ لواحقین نے واقعے کے خلاف احتجاجاً شنہری روڈ کو ٹریفک کیلئے بند کر دیا اور واقعہ کی ایف آئی آر درج کرنے اور ذمہ داران کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ہلاک ہونیو الے طالبعلم کے والد نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”میرے بیٹے کو حوالات میں تشدد کر کے مارا گیا۔ شاہ زیب نجی سکول میں ساتویں جماعت کا طالبعلم تھا، پیر کو اس کا ریاضی کے پرچہ تھا۔ اتوار کے روز دوپہر 2 بجے تھانے سے فون آیا کہ آپ کا بیٹا لاک اپ میں ہے۔ جب میں تھانے پہنچا تو 3 گھنٹے انتظار کروانے کے بعد بتایا گیا کہ آپ کے بیٹے نے خود کشی کر لی ہے۔ ہمیں انصاف دیا جائے اور ذمہ داران کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔“
پولیس کے مطابق شاہ ذیب کو لیاقت بازارمیں تاجروں کے ساتھ تلخ کلامی اور اسلحہ تاننے کے لازام میں گرفتار کیا گیا۔ تاہم کچھ دیر بعد شاہ زیب نے حوالات کے اندر گلے میں پھندا ڈال کر خود کشی کر لی۔ سی سی پی او پشاور کے مطابق واقعے کا مقدمہ درج کر کے تھانے کے عملہ کو معطل اور ذمہ دار پولیس افسران کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی و سماجی رہنماؤں نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے اور طالبعلم کے ورثا کو فوری انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پولیس تشدد اور جعلی انکاؤنٹرز میں نوجوانوں کو قتل کئے جانے کے واقعات پاکستان میں تسلسل کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں۔ چند ماہ قبل اسلام آباد میں ایک گاڑی پر پولیس اہلکاران کی فائرنگ سے ایک طالبعلم کو ہلاک کیا گیا تھا۔ چند روز قبل سندھ میں بھی ایک نوجوان کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کا واقعہ پیش آیا ہے۔ اس کے علاوہ سندھ میں ایس ایس پی راؤ انوار کی زیر سرپرستی جعلی انکاؤنٹرز میں سیکڑوں بے گناہ نوجوانوں کو ہلاک کئے جانے کے انکشافات بھی ہو چکے ہیں۔ تاہم ابھی تک حکومت کی جانب سے اس طرح کے واقعات کے تدارک کیلئے کوئی سنجیدہ حکمت عملی مرتب نہیں کی بلکہ ہر واقعے کے بعد لواحقین کوصلح کیلئے دباؤ ڈالنے جیسے اقدامات شروع کر دیئے جاتے ہیں۔