لاہور (نامہ نگار) دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی عمر رسیدہ شہریوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈان میں شائع ہونیوالی ایک رپورٹ کے مطابق 1950ء میں عالمی سطح پر 60 سال سے زائد عمر کے لگ بھگ 200 ملین افراد تھے۔ 2025ء تک یہ تعداد 1.2 ارب تک پہنچنے کی امید کی جا رہی ہے، کچھ اندازوں کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں عمر رسیدہ شہریوں کی تعداد 850 ملین ہو جائیگی۔
لندن میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم ہیلپ ایج انٹرنیشنل کے مطابق 2019ء تک پاکستان میں 60 سال سے زائد عمر کے افراد کی تعداد تقریباً 15 ملین تھی، جو ملک کی کل آبادی کا 7 فیصد بنتی ہے۔ تنظیم کے مطابق توقع کی جا رہی ہے کہ 2050ء تک پاکستان میں عمر رسیدہ افراد کا تناسب 12 فیصد تک بڑھ کر تعداد 40 ملین ہو جائیگی۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی شہر کراچی میں عمر رسیدہ افراد کی آبادی میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت کراچی میں 47303 عمر رسیدہ شہری تھے، 1998ء تک یہ تعداد بڑھ کر 433717 ہو گئی تھی جو آبادی کا 4.4 فیصد بنتی تھی۔ 2017ء کی مردم شماری کے عمر کے لحاظ سے آبادی سے متعلق نتائج ابھی تک جاری نہیں ہوئے لیکن اگر 4.4 فیصد آبادی کے تناسب کو ہی اپنایا جائے تو اس وقت کراچی میں عمر رسیدہ شہریوں کی آبادی 10 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عمر رسیدہ شہریوں کی آبادی میں اضافے کی بنیادی وجہ میڈیکل کے شعبہ میں ترقی ہے لیکن دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرح ترقی پذیر ممالک میں عمر رسیدہ شہریوں کی دیکھ بھال اور فلاح و بہبود کیلئے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان میں اس طر ح کا انفراسٹرکچر بھی سرے سے موجود نہیں ہے۔
پاکستان سے بڑی تعدادمیں نوجوان آبادی دوسرے ملکوں میں روزگار کیلئے ہجرت کر رہی ہے اور موجودہ ہجرت ماضی سے کچھ مختلف بھی ہے۔ ماضی میں روزگار کے سلسلہ میں ہجرت کرنیوالے اپنے خاندانوں کی ضروریات کی تکمیل کیلئے بیرون ملک محنت مزدوری کرتے تھے لیکن اب یہ رجحان تبدیل ہو رہا ہے اور ہجرت کرنے والے نوجوان اس طرح سے بزرگوں کی دیکھ بھال کاانتظام نہیں کر سکتے اور اکثر عمر رسیدہ افراد اکیلے رہ جاتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی، جسمانی اور جذباتی زمروں میں بزرگوں کو مدد فراہم کرنے کیلئے ایک معاشرے کو مضبوط اداروں اور پالیسی کی ضرورت ہے جو تبدیلی کی حرکیات اور طرز زندگی اور خاندانی ڈھانچے کو مد نظر رکھتے ہوئے وضع کی گئی ہو۔