مائیکل کاراجیس
2014ء سے یوکرین کی صورتحال کے بارے میں کیے جانے والے مشہور دعوؤں کی حقیقت کے حوالے سے مضامین کی اس سیریز میں یہ پہلا مضمون ہے۔ درحقیقت یہ سب افسانوی کہانیاں ہیں۔ بلاشبہ یہ وہ واحد جگہ نہیں ہے، جہاں ان افسانوں کے حقائق سامنے لائے جارہے ہیں، لیکن یہ جھوٹی کہانیاں اس قدر پھیلی ہوئی ہیں کہ انہیں جتنا بھی بے نقاب کیا جائے اتنا بہتر ہے۔ راقم نے محسوس کیا کہ یہ ضروری ہے کہ جب بھی سوشل میڈیا پر اس طرح کی جھوٹی کہانیوں کو دیکھا جائے تو انہیں آسانی سے رد کیاجا نا چاہیے۔
2014میں کریمیا، ڈونیٹسک اور لوہانسک کے علاوہ یوکرین میں کسی جگہ کوئی ’بغاوت‘ نہیں ہوئی۔ نومبر2013سے فروری2014تک کئی مہینوں کے دوران لاکھوں یوکرینی باشندوں نے ایک مسلسل متحرک انداز میں بدعنوان حکمران وکٹریانوکووچ کے خلاف سڑکوں پر مارچ کیا۔ یہ بغاوت روایتی ’کو‘ نہیں تھا، جس سے مراد عام طور پر کسی چھوٹے لیکن طاقتور گروہ(مثلاً مسلح افواج کے ایک حصے یا دیگر ریاستی فورسز) کی جانب سے حکومت کی تیز رفتار اور پرتشدد برطرفی کی سازشی کارروائی ہوتی ہے۔اس حوالے سے درجنوں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ کی حمایت یافتہ بغاوتیں جو چلی میں پنوشے، انڈونیشیا میں سہارتو، زائر میں موبوتو، ایران میں شاہ اور نکاراگوا میں سوموزا جیسے خونخوار آمروں کی صورت میں ہوئیں۔ ایسی بغاوتوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ تاہم ان میں سے کوئی بھی یوکرین میں ہونے والی نچلی سطح سے ابھرنے والی عوامی بغاوت سے مماثل نہیں ہے۔
چونکہ میں نے یانوکووچ کی حکومت کو بدعنوان کہا، تو اگر اس حوالے سے بات کی جائے تو ہم نے پڑھا کہ ان کی معزولی کے بعد ’جب یوکرینی شہریوں نے ان کے محل پر دھاوا بولا تو ایک کارٹونی دولت کا ایک محل دریافت کیا، جس میں سونے سے مزئین باتھ روم، ایک نجی چڑیا گھراور سمندری ڈاکوؤں کے جہاز کی شکل کا ایک تیرتا ہوا ریستوران تھا۔ اس فضول خرچی کی سب سے بڑی مثال یہ تھی کہ انہوں نے مبینہ طور پر ایک فانوس اور 7دسترخوانوں کے لیے 11ملین ڈالر قیمت ادا کی، جن کی اصل قیمت محض13ہزار ڈالر تھی۔‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ ’سوشلسٹ‘طبقاتی تجزیہ کرنے کی بجائے اس قسم کے چور سرمایہ دار حکمرانوں کا دفاع کرتے ہیں۔
یانوکووچ نے ماضی کے دیگر غیر مقبول آمروں کی طرح پہلے مظاہرین کو لاٹھی چارج سے روکنے کی کوشش کی، پھرجمہوریت مخالف اور احتجاج مخالف قوانین کے ذریعے روکنے کی کوشش کی اور پھر بندوقوں کا استعمال کرتے ہوئے سیکڑوں مظاہرین کو گولیاں ماری گئیں۔ تاہم جبر میں آنے والی ہر ایک تبدیلی نے عوامی تحریک کو ظالم حکمران سے چھٹکارا پانے کے عزم کو مزید پختہ بنا دیا۔ جنوری میں حزب اختلاف کی قیادت کی طرف سے کچھ معاہدے کرنے کی کوشش بھی کی گئی تاکہ یانوکووچ کو دسمبر2014تک صدر کے عہدیپر رہنے کی اجازت دی جا سکے۔ تاہم یہ سودے بازی اس وقت بے معنی ہو کر رہ گئی،جب وہ اپنے چوری شدہ اربوں ڈالر (بعض اندازوں کے مطابق 37ارب ڈالر) لے کر روس فرار ہو گئے۔ اس کے بعد 22فروری کو یوکرین کی پوری پارلیمنٹ، بشمول یانوکووچ کے پارٹی اراکین نے انہیں صدر کے عہدے سے ہٹانے کے حق میں ووٹ دیا۔
اگر جمہوری طور پر منتخب پارلیمنٹ کے ذریعہ عوامی بغاوت اور متفقہ ووٹوں پر مشتمل اس طرح کا گہرا جمہوری عمل ایک ’کُو‘ ہے تو منطقی طور پر ہمیں مزید ’کُو‘ کے حق میں ہونا چاہیے۔
2013-14کی یوکرین کی عوامی بغاوت کو سمجھنے کے لیے آندرے کورکوف کی ’یوکرین ڈائریز‘کو پڑھنا بہت ضروری ہے۔ ان میں سے کچھ تک اس لنک کے ذریعے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے، تاہم کتاب خریدنے سے آپ کو ایک مکمل تصور ملے گی۔
اس کے علاوہ ایک حیرت انگیز فلم ’ونٹر آن فائر‘ کو بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو نیٹ فلکس پر موجود ہے۔ اس فلم میں بغاوت کے پورے 3ماہ، مظاہروں کی شدت اور ریاست کے وحشیانہ جبر کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اگر اس فلم کو دیکھنے کے بعد بھی آپ کو لگتا ہے کہ یہ واقعات ایک حقیقی عوامی انقلاب نہیں بلکہ ایک ’کُو‘ تھا، تو پھر ہم کوئی مختلف زبان بول رہے ہونگے۔
یہ ایک المیہ ہے کہ ’بائیں بازو کے لوگ‘ ایک رجعتی سرمایہ دار حکمران کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج کو بری چیز قرار دیتے ہیں۔ اس طرح وہ ہر اس چیز کو مسترد کرتے ہیں، جس کے لیے انہوں نے زندگی بھر کھڑے ہونے کا دعویٰ کیا ہوا ہے۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ لوگوں کے پاس کوئی ایجنسی نہیں ہوتی اور نہ ہی سی آئی اے، وکٹوریا نولینڈ، ہنٹر بائیڈن وغیرہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو جوڑ سکتے ہیں۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ امریکہ یا دیگر ہمیشہ کسی تحریک پر اثر انداز ہونے اور تعاون کرنے کی کوشش کریں گے، لیکن یہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ مقبول عوامی ابھار یا عوامی تحریک کی مخالفت کی جائے۔ اس وجہ سے ایک بدعنوان اور جابرحکومت کو گرائے جانے سے بچانے کے لیے اس کی حمایت بھی نہیں کی جانی چاہیے۔
اس معاملے میں ’کُو‘ ایک بدنام زمانہ اصطلاح ’رنگین انقلاب‘ کا محض ایک تازہ ترین ورژن معلوم ہوتا ہے۔ یہ ایک بکواس تصور ہے جیسے ٹینکیز (خودساختہ کمیونسٹوں)نے ایجاد کیا تھا۔ وہ سربیا کے بہادر محنت کش طبقے کو 2000میں بورژوا قوم پرست قصاب میلوسیوک کا تختہ الٹتے دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ اس کے بعد اس اصطلاح کو مکمل طور پر مختلف حالات میں جارجیامیں 2003میں استعمال کیا گیا اور پھر اسی طرح 2004میں یوکرین میں استعمال کیا گیا۔ یہ صرف ایک اصطلاح ہے جو ’پاپولر عوامی ابھار‘ کے لیے استعمال ہوتی ہے اور مغربی بائیں بازو کے پیروکار اسے نامنظور اس لیے کرتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ دوسرے لوگوں کے لیے کیا بہتر ہے۔ ایسا وہ ایسی صورتحال میں بھی کرتے ہیں جب جس حکومت کے خلاف یہ عوامی ابھار ہو وہ امریکہ کی بجائے روسی یا چینی سامراج کی اتحادی ہوں، یا پھر کھوکھلی ’سامراج مخالفت‘ کا دعویٰ کرتی ہو۔
اس عوامی بغاوت کو امریکہ کی طرف سے منظم کروائے جانے کا خیال امریکی حکمرانوں کی جانب سے اس بغاوت کو اپنانے کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ یہ کہا جاتا سکتا ہے کہ امریکی رہنما کسی دوسرے ملک میں احتجاج کرنے والے رہنماؤں سے کیوں ملاقاتیں کر رہے ہیں؟ اس بات سے اتفاق ہے کہ امریکیوں کو اس سے دور رہنا چاہیے، ایسا ہی روسیوں کو بھی کرنا چاہیے۔ تاہم یہاں بات اس کی سیاسی اخلاقیات کی نہیں ہے۔ یہ سوچنا نادانی ہے کہ طاقتور ریاستیں ہمیشہ تحریکوں کا ساتھ دینے کی کوشش نہیں کرتیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اس میں بہت محدود مداخلت کر پائے اور ان کے پاس اتنی طاقت تھی بھی نہیں۔
اہم الزام یہ ہے کہ وکٹوریہ نولینڈ جیسے امریکی مشیروں نے نگراں وزیراعظم کے انتخاب میں کچھ کردار ادا کیا، جویانوکووچ کے وزیراعظم میکولاآزاروف کے مستعفی ہونے کے بعد اس کرسی پر عارضی طو رپر براجمان ہوا۔ تاہم نگراں وزیراعظم کے اس انتخاب میں امریکی مشورہ فیصلہ کن تھا یا نہیں یہ کہنا مشکل ہے۔ یہ خیال نولینڈ اور امریکی سفیر جیفری پیاٹ کی لیک ہونے والی خط و کتابت پر مبنی ہے، جہاں انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے امیدوار (تین آپشنز میں سے) آرسینی یاتسینیوک کو ترجیح دی، جنہیں بعد میں یوکرائنی پارلیمنٹ نے عبوری وزیر اعظم کے طور پر منتخب کیا تھا۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ یوکرین کی پارلیمنٹ نے اپنا فیصلہ کیا ہو کہ انہوں نے تین آپشنز میں سے انہیں ترجیح دی؟
مختصر توجہ کے حامل وہ لوگ جو ’کُو‘، امریکہ، ’فاشسٹ‘ اور ’روسی زبان پر پابندی‘ کے بارے میں کچھ بھی سوچتے ہیں، ان کے لیے محض دلچسپی سے ہٹ کر اگرچہ منتخب کردہ عبوری رہنماؤں کو مختصر طور پر دیکھنا بہتر ہے۔ نولینڈ کی لیک ہونے والی خط و کتابت سے یہ واضح ہے کہ جس امیدوار کو انہوں نے وزیر اعظم کے طور پر ترجیح دی، وہ انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اولیہ تیاہنی بوک کے مقابلے میں زیادہ لبرل امیدواروں میں سے ایک تھے۔ جیسا کہ جیفری پیاٹ نوٹ کرتے ہیں کہ،’ہم اعتدال پسند جمہوریت پسندوں کو ایک ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ مسئلہ تیاہنی بوک اور ان کے لڑکوں کا ہو گا۔‘ کسی بھی وجہ سے وہ دوسرے ’اعتدال پسند جمہوریت پسند‘ ویٹالے کلٹش کو پر یاتسینیوک کو ترجیح دے رہے تھے۔نولینڈ کا کہنا تھا کہ’مجھے نہیں لگتا کہ کلِٹش کو حکومت میں جانا چاہیے۔۔۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ ایک اچھا آئیڈیا ہے۔ انہیں (یاتسینیوک) کو ضرورت ہے کہ کلٹش اور تیاہنی بوک باہر ہی رہیں۔‘واضح طور پر وہ انتہائی دائیں بازو کو باہر رکھنا چاہتے تھے، لیکن جہاں تک کلٹش کے مقابلے میں یاتس کا تعلق ہے، اس کا واحد اشارہ یہ ہے کہ یاتس کو شاید ماسکو نے زیادہ سمجھوتہ کرنے والے امیدوار کے طور پر دیکھا۔ یانوکووچ نے بھی اپنے وزیراعظم کے مستعفی ہونے سے قبل25جنوری کو یاتسینیوک کو وزارت عظمیٰ کی پیش کی تھی۔
درحقیقت انہیں لیک ہونے والے خطوط میں نولینڈ اور پیاٹ نے بھی یانوکووچ تک کسی قسم کی رسائی کی ضرورت کی بات کی تھی۔ لہٰذا نولینڈ کی گفتگو ایک انتہائی دائیں بازوکی اور ماسکو مخالف بغاوت کا حصہ ہونے کی بجائے زیادہ تر عبوری وزیراعظم کے طور پر ایسے امیدوار کو ترجیح دینے پر مرکوز تھی، جو ماسکو کے ساتھ بہترین پل کا کردار بنا سکے۔مشہور نولینڈ لیک سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نولینڈ اور امریکی حکومت کی ترجیح یانوکووچ کے ساتھ ڈیل کرنااور کسی حد اس سے کمپرومائز کروانا تھی۔ بائیں بازو کے سازشی اس سب میں جس چیز پر کم توجہ دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ یوکرین کے صدر اور وزیراعظم دونوں ہیں۔ یانوکووچ صدر تھے اور نولینڈ کی بحث میں ان کے عہدے سے کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ وہ اس بات پر زور دے رہے تھے کہ ان کا عبوری زیراعظم کون بننے جا رہا ہے۔ نولینڈ، امریکہ اور اعتدال پسند جمہوریت پسندوں کی بدقسمتی یہ تھی کہ ان کے مابین یانوکووچ کو نئے وزیراعظم کے ساتھ دسمبر تک اقتدار میں رکھنے کے لیے طے پانے والے معاہدے کو یوکرینی عوام نے مسترد کر دیاتھا۔ امریکی مداخلت! نولینڈ نے یانوکووچ کے لیے اسی عبوری وزیر اعظم کی وکالت کی جس طرح یانوکووچ نے اقتدار کے لیے معاہدے میں مدد کی!
جہاں تک عبوری صدر کا تعلق ہے، اولیکسینڈر ٹورچینوف کو یوکرین کی پارلیمنٹ نے 23 فروری کو یانوکووچ کو معزول کرنے کے بعد مقرر کیا تھا، اور اس تقرری کے بارے میں کوئی ’نولینڈ اسٹوری‘ نہیں ہے۔ تاہم کیا ’کُو‘رہنماؤں (یعنی پوری منتخب پارلیمنٹ) نے ماسکو اور یوکرین میں روسی بولنے والوں کے ساتھ تناؤ بڑھانے کے لیے کچھ پاگل روسوفوبیا کا شکار لوگوں کا انتخاب کیا؟ جب ’میدان تحریک‘کے بعد کی عبوری حکومت نے یانوکووچ کے 2012میں متعارف کروائے گئے زبان کے قانون کو ختم کرنے کی کوشش کی، تو اسے عبوری صدر توچینوف نے ہی ویٹو کیا۔ اس قانون نے روسی زبان کو یوکرینی زبان کے برابر کا درجہ دیا تھا۔ لہٰذا بہت زیادہ اعتدال پسنداور بریج بلڈرمغربی یوکرینی قوم پرستی کے مزید شدید تناؤ کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ واقعی ٹینکی فکشن کہانیوں کے لیے بہت اچھا نہیں ہے۔
بہر حال مختصر عبوری مدت کے بعد مئی میں صدارتی انتخابات ہوئے، جن میں یوکرینیوں نے آزادانہ طور پر پیٹروپوروشینکو کو منتخب کیا۔ اکتوبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں یوکرینیوں نے آزادانہ طور پر حکومت کا انتخاب کیا اور وزیراعظم کے طور پر ایک بار پھر یاتسینیوک کا انتخاب کیا گیا۔ ان کی پارٹی پیپلزفرنٹ پارٹی نے سب سے زیادہ پاپولر ووٹ حاصل کیے، اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ ویکٹوریہ نولینڈ کا اس سے کوئی تعلق تھا۔ ٹینکیز پھر بھی امریکہ کے یوکرینی حکومت کے انتخاب میں کردار سے متعلق کہانیا بنا سکتے ہیں، لیکن ان کااصل اصل مطلب یہ ہے کہ دور دراز علاقوں میں رہنے والے یہ اچھے لوگ یوکرینیوں کے جمہوری طریقے سے کیے گئے انتخاب کو ناپسند کرتے ہیں، اور یقین رکھتے ہیں کہ انہیں یہ مطالبہ کرنے کا حق ہے کہ وہ دوسری صورت میں انتخاب کریں۔
پارلیمانی انتخابات میں یاتسینیوک اور پوروشینکو کی جماعتوں نے نصف سے زیادہ ووٹ اور اکثریتی ووٹ حاصل کیے، جبکہ اپوزیشن بلاک(پارٹی آف ریجنز نام تبدیل کر کے اپوزیشن بلاک کے طور پر شامل ہوئی تھی، جس کے بارے میں ٹینکیز آپ کو بتائیں گے کہ انہیں الیکشن لڑنے پر پابندی لگا دی گئی تھی) نے 9.43فیصد ووٹ اور27نشستیں حاصل کیں۔ دوسری طرف فاشسٹ دائیں بازو اور یوکرین کی کمیونسٹ پارٹی کی ضمانتیں ضبط ہوئیں اور انہیں کوئی نشست نہیں مل سکی۔
جہاں تک یانوکووچ کا تعلق ہے،ان کی اپنی پارٹی آف ریجنز کے ممبران پارلیمنٹ نے ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ ’یوکرین کو دھوکہ دیا گیا اور لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کیا گیا۔ اس کیمکمل ذمہ داری یانوکووچ اور ان کے لوگوں پر عائد ہوتی ہے۔‘جہاں تک ڈونیٹسک اور لوہانسک میں یانوکووچ کی حامی آبادیوں کا تعلق ہے۔ اپریل2014میں ایک سروے ہوا، جس میں یہ پوچھا گیا کہ ’کیا آپ یانوکووچ کو یوکرین کا جائز صدر مانتے ہیں؟‘ڈونیٹسک اور لوہانسک میں بالترتیب صرف32اور28فیصد لوگوں نے جواب میں ’شاید‘ یا ’یقینا‘ ہاں کہا۔ یوکرین میں یہ سب سے زیادہ ووٹ تھا۔ پورے یوکرین میں 57، 58فیصد لوگوں نے ’شاید‘ یا ’یقینا‘ نہیں جواب دیا۔ یوں مغربی ٹینکیز ایک قاتل، انتہائی بدعنوان کھرب پتی الیگارچ کے پیدائشی طور پر حکمرانی کے حقوق کا دفاع کرنے کے معاملے میں بالکل تنہا ہیں۔
(ترجمہ: حارث قدیر)