سماجی مسائل

دنیا بھر میں روزانہ 137 خواتین اپنے رشتہ داروں کے ہاتھوں ہلاک ہوتی ہیں

حارث قدیر

اقوام متحدہ کے شعبہ خواتین کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق حالیہ برسوں میں دنیا بھر میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق عالمی سطح پر 15 سے 30 سال کی عمر کے دوران تقریباً 736 ملین خواتین یا ہر 3 میں سے 1 خاتون کو زندگی میں کم از کم ایک بار تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، ان اعداد و شمار میں جنسی ہراسگی کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔

خواتین کے خلاف زیادہ تر تشدد موجودہ یا سابقہ شوہروں کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ 15 سال اور اس سے زیادہ عمر کی 640 ملین سے زیادہ خواتین کو ساتھیوں کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، یہ تعداد 15 سال سے زیادہ عمر کی کل خواتین کا 26 فیصد بنتی ہے۔ 15 سے 19 سال کی عمر کی 24 فیصد نو عمر لڑکیوں کو قریبی ساتھی یا شوہر کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گزشتہ ایک سال میں 15 سے 24 سال کی عمر کی 16 فیصد نوجوان لڑکیوں کو تشدد کاسامنا کرنا پڑا۔

2018ء میں ایک اندازے کے مطابق ہر 7 میں سے 1 خاتون کو ایک سال کے دوران اپنے ساتھی یا شوہر کی جانب سے جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا جو 15 سال سے زیادہ عمر کی خواتین کا 13 فیصد بنتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق کچھ ممالک میں ہیلپ لائنوں پر فون کال کرنے کے رجحان میں 5 گنا اضافہ ہوا ہے۔ کورونا وبا کی وجہ سے محدود حرکت، معاشرتی تنہائی اور معاشی عدم تحفظ کے سبب دنیا بھر میں گھروں میں خواتین پر تشددکا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ستمبر 2020ء تک 52 ممالک نے خواتین اور لڑکیوں کے خلاف ہونیوالے تشدد کے خاتمے کو کورونا وبا کے خلاف اقدامات کے ساتھ مربوط کیا تھا جبکہ 121 ممالک نے عالمی بحرانی حالت میں تشدد سے بچ جانے والی خواتین کیلئے خدمات کو مستحکم کرنے کے اقدامات اپنائے لیکن مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔

عالمی سطح پر 06 فیصد خواتین کی اطلاع ہے کہ وہ اپنے شوہر یا ساتھی کے علاوہ کسی اور کے ذریعے جنسی تشدد کا نشانہ بنی ہیں، تاہم بدنامی کی وجہ سے اس طرح کے واقعات رپورٹ کرنے سے گریز کے رجحان کی وجہ سے درست اعداد و شمار تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔

دنیا بھر میں روزانہ 137 خواتین اپنے خاندان کے کسی فرد کے ہاتھوں ہلاک ہو جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق عالمی سطح پر 2017ء میں جان بوجھ کر ہلاک کی جانیوالی 87000 خواتین میں سے نصف سے زیادہ قریبی شراکت داروں یا خاندان کے افراد کے ہاتھوں ہلاک کی گئیں۔ 2017ء میں جان بوجھ کر ہلاک کی جانیوالی ایک تہائی سے زیادہ خواتین کو ان کے موجودہ یا سابقہ شوہر یا قریبی ساتھی نے قتل کیا۔

رپورٹ کے مطابق تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین میں سے 40 فیصد سے بھی کم کسی بھی طرح کی مدد لیتی ہیں۔ اس مسئلے پر دستیاب اعداد و شمار کے حامل ممالک میں خواتین کی مدد کیلئے زیادہ تر افراد خاندان اور دوستوں پر انحصار کرتے ہیں اور پولیس اور صحت جیسے اداروں کی طرف بہت کم رجوع کرتے ہیں۔ مدد مانگنے والوں میں سے 10 فیصد سے بھی کم لوگوں نے پولیس سے مدد کی اپیل کی۔

عالمی سطح پر خواتین کے خلاف تشدد غیر متناسب طور پر کم اور درمیانی آمدن والے ممالک اور خطوں کو متاثر کرتا ہے۔ کم از کم 155 ممالک نے گھریلو تشدد سے متعلق قوانین منظور کئے اور کام کے مقامات پر جنسی ہراسگی سے متعلق 140 قوانین موجود ہیں۔ تاہم قوانین بنائے جانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان پر عملدرآمد بھی ہو رہا ہے۔

عالمی سطح پر انسانی سمگلنگ کے متاثرین میں 49 فیصد بالغ خواتین شامل ہیں۔ خواتین اور لڑکیوں میں ایک ساتھ یہ تناسب 72 فیصد ہے اور ہر 4 میں سے 3 سے زیادہ بچیاں چائلڈ ٹریفکنگ کا شکار ہوتی ہیں، زیادہ تر خواتین اور لڑکیوں کو جنسی استحصال کے مقصد کے لئے سمگل کیا جاتا ہے۔

2019ء میں 20 سے 24 سال کی عمر کی کل لڑکیوں میں سے ہر 5 میں سے ایک کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے ہوئی تھی۔ گزشتہ ایک دہائی میں بچیوں کی شادی کی عالمی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں 15 ملین نو عمر لڑکیوں نے 15 سے 19 سال کی عمر میں زبردستی جنسی تعلقات کا سامنا کیا۔ اکثریتی ممالک میں نو عمر لڑکیوں کو ساتھی یا بوائے فرینڈ کے ذریعے زبردستی جنسی تعلقات کا خطرہ ہوتا ہے۔ 30 ممالک کے اعداد و شمار کے مطابق صرف ایک فیصد لوگوں نے پیشہ وارانہ مدد طلب کی ہے۔

یورپی یونین میں 10 میں سے 1 خاتون 15 سال کی عمر سے ہی سائبر ہراسگی کا شکار ہوتی ہے۔ یہ خطرہ 18 سے 29 سال کی عمر کی نوجوان خواتین میں سب سے زیادہ ہے۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں 60 فیصد خواتین کو اسٹریٹ بیسڈ جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

دنیا بھر میں 82 فیصد رکن پارلیمان خواتین کو کسی نہ کسی طرح کے نفسیاتی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ نصف سے زیادہ خواتین کو یا ان کے اہل خانہ کو موت، عصمت دری، حملے یا اغوا کی دھمکیوں یا اطلاعات موصول ہوئیں۔ پارلیمنٹ میں مرد ساتھیوں کی طرف سے بنیادی طو ر پر 65 فیصد خواتین کو جنسی طور پر تبصروں کا نشانہ بنایا گیا۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔