لاہور (جدوجہد رپورٹ) پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں کام کرنیوالی مسلم نرسوں نے ہسپتال میں قائم عیسائیوں کی عبادت گاہ (چرچ) پر قبضہ کر نے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔ نیا دور کے مطابق ہسپتال کی نرسوں نے اس چرچ پر گزشتہ منگل کے روز قبضہ کیا تھا اور یہ اقدام مبینہ طور پر فرانس کے ایک نامعلوم شخص کی پاکستان مخالف ویڈیو کے رد عمل کے طور پر کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ہسپتال میں موجود مشتعل نرسوں نے چرچ پر قبضہ کرنے کے بعد ہسپتال کے عیسائی عملے کو اسلام قبول نہ کرنے کی صورت توہین رسالت کے مقدمات کی دھمکیاں دیں اور چرچ کو ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
یہ تنازعہ کافی دن تک جاری رہا جس کے بعد سینئر ڈاکٹروں اور فادر جیمز چمن کی مدد سے ایک 15 رکنی مذاکراتی ٹیم نے دونوں فریقین کے مابین ایک معاہدہ طے کرواتے ہوئے اس تنازعہ کو حل کروایا۔ معاہدے کے مطابق فریقین ایک دوسرے کے خلاف کوئی بیان جاری نہیں کریں گے اور نہ ہی ایک دوسرے کے خلاف مزید کوئی شکایات درج کروائی جائیں گی۔
پنجاب حکومت اور پولیس کی جانب سے فریقین کے مابین آپسی معاہدہ کے تحت معاملہ حل کئے جانے کے بعد کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ تاہم میڈیا کے مطابق پولیس اور متعلق حکام کا کہنا ہے کہ دونوں فریقوں کے مابین سمجھوتہ ہوجانے کے باوجود وہ اس صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
چرچ پر قبضہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد صارفین اسے اقلیتوں پر جبر اور مذہبی آزادی پرحملے سے تعبیر کر رہے ہیں اور پنجاب حکومت اور پولیس سے واقعہ کے ذمہ داران اور کرداروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
حقوق خلق موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر عمار علی جان نے ٹویٹ میں لکھا کہ ’حکومت اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے متاثرین پر حملہ کرنے والے اکثریتی برادری کے اراکین کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔ متاثرین کے خلاف حملہ آوروں سے سمجھوتہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔“