حارث قدیر
انسانی حقوق کمیشن کی سالانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 2020ء کے دوران پاکستان کے صوبہ سندھ سے کل 127 افراد لاپتہ ہوئے، جن میں سے 112 افراد بازیاب ہو گئے جبکہ 15 تا حال لاپتہ ہیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران 6 ہندو لڑکیوں کو جبری طور پر مذہب تبدیل کروائے جانے کے کیس رپورٹ ہوئے۔ انجمن سازی کے حق پر پابندی عائد کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے 3 سندھی قوم پرست تنظیموں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ غیر ت کے نام پر قتل کے 197 واقعات میں 215 افراد متاثر ہوئے، جن میں سے 79 مرد اور 136 خواتین متاثرین شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سندھ میں 3.5 ملین بچے سکول سے باہر ہیں، جبکہ نجکاری پروگرام کے تحت پاکستان سٹیل ملز کے 4500 مزدوروں کو جبری طور پر برطرف کیا گیا۔ سال 2020ء کے دوران 660 غیر سرکاری تنظیموں کا آڈٹ کروایا گیا، جن میں سے 25 تنظیموں کو ٹیئر ٹو آڈٹ کیلئے محکمہ انسداد دہشت گردی کے حوالے کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے جبری گمشدگیوں کے واقعات کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا۔ کراچی پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کے اہل خانہ کا احتجاجی کیمپ لمبے عرصے تک قائم رکھا گیا، لاپتہ افراد کے رشتہ دار اپنے پیاروں کو بازیاب کروانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، انکا مطالبہ ہے کہ اگر انکے عزیزکسی جرم میں ملوث ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کر کے انکے خلاف مقدمات چلائے جائیں اور قانونی کارروائی کی جائے لیکن ماورائے عدالت گمشدگیوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی برائے شیعہ لاپتہ افراد کا احتجاجی دھرنا بھی جاری رہا۔
رپورٹ کے مطابق جبری طور پر مذہب کی تبدیلی کے واقعات صرف ہندو کمیونٹی کے ساتھ ہی نہیں پیش آ رہے بلکہ عیسائی اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بھی اس طرح کے واقعات پیش آ رہے ہیں کہ انکی کم عمر لڑکیوں کو آغوا کر کے جبری طو ر پرمذہب تبدیل کروایا جا رہا ہے۔ متعدد واقعات میں لڑکیوں کو بالغ ظاہر کر تے ہوئے انکا مسلمان مردوں سے نکاح کروایا گیا لیکن بذریعہ عدالت میڈیکل میں ان لڑکیوں کی عمریں کم پائی گئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سندھ میں بھی سیاسی آزادیوں کے حوالے سے صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی، دسمبر 2020ء میں بھی پختون تحفظ موومنٹ کے ذمہ داران کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ مذکورہ مقدمہ میں ایم این اے علی وزیر کو پشاور سے گرفتار کر کے سندھ منتقل کیا گیا اور وہ تاحال گرفتار ہیں۔
سندھ میں قومی ایام بالخصوص 14 اگست وغیرہ کے موقع پر سیاسی کارکنوں کو گرفتار کرنے کے بعد ان سے سندھ کی قوم پرست تنظیموں سے لاتعلقی کے اعلانات سرکاری سرپرستی میں کروائے جا رہے ہیں۔ پریس کانفرنسوں سے تحریر خطاب کرتے ہوئے متعدد نوجوانوں نے 2020ء کے دوران قوم پرست پارٹیوں سے علیحدگی کا اعلان کیا اور قومی دھارے میں شامل ہونے کا اعلان کیا گیا۔