گلگت (حارث قدیر) گلگت بلتستان میں خصوصی ٹاسک فورس کی جانب سے انسانی حقوق کے کارکن حسنین رمل سمیت کم از کم 4 سوشل میڈیا ایکٹوسٹ گرفتار کئے گئے ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق ان افراد پر الزام ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش کی ہے اور انہیں سائبر کرائم ایکٹ کے تحت 7 ایام کیلئے ایف آئی اے کی حراست میں دیا گیا ہے۔ تاہم حسنین رمل کے ورثا کے مطابق انہیں تاحال حسنین رمل سے ملنے کی اجازت نہیں ملی اور نہ ہی یہ معلوم ہو سکا ہے کہ انہیں گرفتار کر کے کہاں رکھا گیا ہے۔
مقامی صحافی فہیم اختر کے مطابق انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی پھیلانے میں ملوث لوگوں کے خلاف کارروائی کیلئے خصوصی ٹاسک فورس قائم کی گئی ہے، جس میں پولیس، ایجنسیوں اور ایف آئی اے کے لوگ شامل ہیں۔ ابتدائی طو رپر 18 افراد کی شناخت کی گئی ہے، جن میں سے 4 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ دیگر کی گرفتاری کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ تاہم انتظامیہ کی طرف سے ایف آئی آر یا گرفتار افراد کے نام صحافیوں کو فراہم نہیں کئے گئے۔
واضح رہے کہ گزشتہ چند روز سے گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ تنازعہ چل رہا ہے۔ شیعہ اورسنی مسلک کے علما کی جانب سے ایک دوسرے کو مناظرے و مباہلے کا چیلنج دیا گیا ہے، دونوں فریقین کی جانب سے چیلنج قبول کرنے کے بعد آئندہ جمعہ کو شاہی پولو گراؤنڈ میں مباہلہ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
17 مئی کو تنظیم اہلسنت والجماعت گلگت بلتستان کی جانب سے اجلاس کے بعد اعلامیہ جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ ایک فریق مسلسل امن و امان خراب کر رہا ہے اور مختلف انداز سے توہین کا سلسلہ جاری ہے۔ اعلامیہ میں توہین کا مقدمہ درج کروانے اور مناظرے و مباہلے کا چیلنج بھی دیتے ہوئے وقت اور جگہ کے تعین کا مطالبہ کیا گیا۔
مرکزی امامیہ کونسل گلگت بلتستان نے اسی روز جوابی خط ارسال کرتے ہوئے مباہلے کا چیلنج قبول کرتے ہوئے شاہی پولو گراؤنڈ میں جمعہ 21 مئی سہہ پہر 3 بجے کا وقت مقرر کیا۔ خط کی کاپیاں وزیراعلیٰ، سیکرٹری داخلہ، ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی کو بھی ارسال کی گئیں۔
اہلسنت والجماعت کے مولانا قاضی نثار کی قیادت میں توہین کے مقدمہ کی درخواست بھی دی گئی اور گلگت شہر سے شاہی پولو گراؤنڈ تک بشکل مارچ جانے کا اعلان کیا گیا۔ تاہم حکومت کی طرف سے ابھی تک دونوں فریقین کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔ فہیم اختر کے مطابق سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ معاملے کو حل کرنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
دونوں مسالک کی جانب سے خطوط اور مباہلے کے چیلنج کے بعد سوشل میڈیا پر انسانی حقوق کے کارکنوں اوربلاگرز نے نہ صرف فرقہ وارانہ تنازعہ کی مذمت کی بلکہ ان اقدامات کے پس پردہ محرکات پر بات کرنا شروع کی گئی تھی۔ فہیم اختر کے مطابق منافرت پھیلانے کے الزام میں ایسے لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے جو فرقہ واریت کی مخالفت کر رہے تھے اور حکومت پر تنقید کرنے کے حوالے سے شہرت رکھتے تھے۔
یاد رہے کہ حسنین رمل نے گرفتاری سے چند گھنٹے قبل سوشل میڈیا سائٹ فیس بک پرایک پوسٹ میں شیعہ سنی کشیدگی کا ذمہ دار ایف سی این اے کو قرار دیا تھا، انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایف سی این اے کے حکم نامے پر سوالات اٹھانے پر فائرنگ کے واقعات بھی پیش آئے۔
دوسری طرف صحافی فہیم اختر کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں جان بوجھ کر فرقہ وارانہ فسادات اور منافرت کو ہوا دی جا رہی ہے۔ موجودہ حکومت نے گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کے دعوے پر الیکشن میں کامیابی حاصل کی تھی۔ صوبہ تو درکنار مقامی مسائل کے حل کیلئے بھی کوئی اقدامات نہیں کئے جا رہے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ اگر وہ وعدوں پر عملدرآمد نہیں کرینگے تو عوامی رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان میں مسلکی تنازعہ کو ابھار کر لوگوں کو سیاسی اور معاشی حقوق مانگنے کی بجائے آپس میں لڑانے کی سازش ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مباہلے کے چیلنج دینے اور قبول کرنے والوں کی بجائے انسانی حقوق کے کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔