خبریں/تبصرے

کرونا وائرس اور غربت کی زد میں ننھے مزدور جن کا کوئی پرسان حال نہیں!

قیصر عباس

”یوگنڈا میں پندرہ سالہ ڈینیل روزانہ بھاری سامان اور سیمنٹ ایک چار منزلہ زیر تعمیر عمارت میں اوپر لے جانے کا کام کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اکژاس کے اعصاب جواب دے جاتے ہیں مگر اسے روزانہ دس گھنٹوں تک مشقت کرنا ہوتی ہے (ہیومن رائٹس واچ)۔

”تیرہ سالہ عبدالرشید اسلام آباد میں ٹریفک لائٹس پر کھڑی کاروں کے شیشے صاف کرتا ہے۔ اچھے دنوں میں اس کی کمائی تقریباً پانچ سو روپے ہو جاتی تھی لیکن کرونا وائر س کے دوران اس کی آمدنی ختم ہو گئی ہے (ڈوئچ ویلے ریڈیو)۔

”سب سے زیادہ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے جاننے والوں نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا ۔ ہماری والدہ نے جو کرونا کا شکار ہوکر ہم سے دور جاچکی تھیں، ہمارے لئے آخری کھانا پکایا تھا، وہی ہمارے کام آیا جس کے بعد کسی نے نہیں پوچھا کہ کس حال میں ہو (بی بی سی رپورٹ، انڈیا کی ریاست بہار کی ایک نوعمر بچی کا بیان جسے اپنی ماں کی ہلاکت کے بعد اس کی تدفین خود کرنی پڑی )۔

افریقہ سے ایشیا اور لاطینی امریکہ تک اس قسم کے لاتعداد بچے محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے خاندانوں کا پیٹ پال رہے ہیں۔ کرونا وائرس اور غربت نے نہ صرف انہیں تعلیم سے دور کر دیا ہے بلکہ ان کے معاشی اور سماجی مسائل میں ناقابل یقین حدتک اضافہ کر دیا ہے۔

ہر سال بارہ جون کو کم سن بچوں کی مزدوری کے خلاف عالمی دن منا یا جاتا ہے۔ اس موقع پر اقوم متحدہ نے اپنے ایک پیشگی پیغام میں کہا ہے کہ ”کووڈ 19 کے انسانی صحت اور معاشی اثرات دنیا بھر میں محسوس کئے جا رہے ہیں۔ بد قسمتی سے اس کے اثرات بچوں پر سب سے پہلے نظر آتے ہیں اور پوری دنیامیں کروڑوں بچے اس کے نتیجے میں محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔“

گزشتہ برسوں میں اقوام متحدہ کے مقررکردہ ترقی کے اہداف کئی ملکوں میں حاصل کئے گئے تھے جس کے نتیجے میں مزدوربچوں کی تعداد کم کرنے میں خواطر خواہ کامیابی بھی ہوئی۔ اس دوران مزدور بچوں کی تعداد 245 ملین سے کم ہو کر 152 ملین تک ہو گئی تھی۔ لیکن ادارے کا کہنا ہے کہ کروناوائرس جیسی مہلک وبا نے ان کامیابیوں کو مزید پیچھے دھکیل دیا ہے اور اندازہ ہے کہ ایک بار پھر بچوں کو، جنہیں ا س عمر میں تعلیمی اداروں میں ہونا چاہئے تھا، معاشی نظام کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔

دنیابھر میں کروناوائرس کی ابتدا سے لے کر اب تک زیادہ تر توجہ بالغ اور عمر رسیدہ افراد پر رہی ہے۔ اس سائنسی حقیقت کے پس منظر میں کہ یہ وبابڑی عمر کے لوگوں کے لئے انتہائی خطرناک ہے، یہ کوئی غیر مناسب بات بھی نہیں تھی۔ لیکن کووڈ سے ایک بڑی تعداد میں متاثر کم سن بچے بھی ہوتے ہیں اگرچہ ان پر یہ اثرات براہ راست کم مگر دیرپاہوتے ہیں۔ اس کے باوجود بڑے پیمانے پر ان کم سن بچوں پر ہونے والے اثرات سے توجہ ہٹاکر حکومتوں نے اکثر سماج کے اس اہم حصے کو نظر انداز کیاہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی پیمانے پر کووڈ 19 کے دیر پا اثرات کا بچے ہی شکار ہو رہے ہیں جنہیں معاشی طور پر نامساعد حالات میں نہ صرف محنت مزدوری میں جھونکا جا رہا ہے بلکہ کئی ملکوں میں والدین کے علا ج معالجے اور ہلاکت کے بعد وہ مزید مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں۔

ادارے کے زیر اہتمام تین ملکوں، گھانا، یوگنڈا اور نیپال میں کئے گئے بچوں کے ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ غربت اور وبا میں گرفتار سماجی اکائیوں میں سب سے ذیادہ دوررس اثرات بچوں پر دیکھے گئے ہیں۔ ان ملکوں میں ادارے نے 81 بچوں کے انٹرویو کئے جو اپنے خاندانوں کے معاشی حالات سدھارنے کے لئے مزدوری کر رہے ہیں۔ یہ بچے انیٹوں کے بھٹوں، قالین بافی کی صنعتوں، سونے اور قیمتی پتھروں کی کانوں، ماہی گیری، زراعت اور دوسرے شعبوں میں کام کرتے ہیں۔

سروے کے نتائج کے مطابق کرونا وائرس وبا کے ان مضر اثرات کا تعلق کم عمری میں بچوں کی مزدوری، سخت اوقات کار، کام کاغیر محفوظ ماحول، کم معاوضے اور کم سن مزدوروں کے انسانی حقوق سے متعلق ہے۔

سروے میں شامل بچوں کی ایک بڑی تعداد نے بتایا کہ کووڈ کی وبا اور اس کے لاک ڈاون نے ان کے خاندان کی آمدنی پر منفی اثرات چھوڑے ہیں: ”تجارتی سرگرمیوں میں کمی کی وجہ سے ان کے والدین بے روزگار ہو گئے، مواصلاتی نظام بند ہونے کے بعد ان کا مارکیٹ سے سلسلہ منقطع ہو گیا یا گاہکوں میں کمی دیکھی گئی۔“ اکثر صورتوں میں بچے پہلی بار محنت مزدوری شروع کرنے پر مجبور ہوئے تاکہ والدین کی گرتی ہوئی آمدنی میں ان کا ہاتھ بٹائیں اور پھر یہ سلسلہ بند نہیں ہوا۔

یوگنڈا اور گھانا میں یہ بچے خطرناک حالات میں مشقت کر رہے ہیں، بھاری سامان اٹھا رہے ہیں اور کانوں میں انتہائی محنت طلب ماحول میں کام کر رہے ہیں۔ کم سن بچے ان مشکل حالات میں اکثر زخمی بھی ہوتے ہیں اور انہیں علاج کی سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں۔

یہ بچے ان تین ملکوں میں لمبے اوقات کار میں کام کرنے پر مجبور ہیں اور 10 سے 14 گھنٹے روزانہ، ہفتے کے ساتوں دن، کام کرتے ہیں۔ اس مشقت کے باوجود انہیں کام کا مناسب معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ ایک چوتھائی بچوں نے محققین کو بتا یا کہ ان کے مالک کم تنخوا ہ دیتے ہیں یا مختلف بہانوں سے معاوضہ ادا نہیں کرتے۔ نیپال میں مزدور بچوں کو مشکل سے چار ڈالر اور یوگنڈا میں دو ڈالر روزانہ، بلکہ اکثر اس سے بھی کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔

سروے کے مطابق بچوں میں مزدوری کے دوسرے محرک ”وبا میں گرفتار والدین کی گرتی ہوئی صحت، معذوری یا ان کی ہلاکتیں بھی ہیں جس کے نتیجے میں بچے ہی آمدنی کا بوجھ سنبھالتے ہیں۔ پوری دنیا میں وبا میں مرنے والوں کی تعداد تین ملین افراد سے زیادہ ہو چکی ہے جس کے بعد سینکڑوں اور ہزاروں بچے اپنے خاندانوں کے کفیل بننے پر مجبور ہوگئے ہیں۔“

لیکن کرونا وائرس کے مضر اثرات صر ف ان تین ملکوں تک محدود نہیں ہیں۔ عالمی رپورٹوں اور تحقیق کے مطابق جنوبی ایشیا میں بھی، جہاں غربت اور بچوں کی بہبود ایک اہم مسئلہ ہے، یہ کم سن فرشتے وبا ئی اثرات کے تحت نئی صعوبتوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

جنوبی ایشیا میں محنت کش بچوں کی حالت زار

بر صغیر پاک و ہند میں محنت کش بچوں کو گونا گوں مسائل درپیش ہیں۔ انڈیا ان ملکوں میں شامل ہے جہاں کرونا وائرس نے ہنگامی صورت حال کا روپ دھارلیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ملک میں ویکسن ایک بڑی تعداد میں تیار کی جاتی ہے لیکن یہاں تیار ہونے والی ویکسن کو ملک کے عوام کے علاج کے بجائے دوسرے ملکوں میں درآمد کیا جاتا رہا ہے۔

حکومت کی نااہلی اور بد انتظامی کے اثرات غریب بچوں پر بھی پڑ رہے ہیں۔ بی بی سی نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق وہ بچے جن کے والدین وبا کا شکار ہو کر ہلاک ہو گئے ہیں کسمپرسی کے عالم میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ بہار کی ریاست میں ایک بچی سونی کو والدین کی موت کے بعد تن تنہا اپنی والدہ کی تدفین کرنا پڑی۔ اس کا کہنا تھا کہ ”میرے والدین کی ہلاکت کے بعدکوئی ان کے قریب نہیں آنا چاہتا تھا، مجبوراً مجھے خودہی اپنی ماں کو دفن کرنا پڑا۔“ خوش قسمتی سے سماجی تنظیمیں اور سرکاری ادارے اب سونی اور اس کی دو بہنوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔

وبا کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے والدین کے یتیم بچوں کی دیکھ بھال کے لئے اب کئی تنظیمیں اور سرکاری ادارے میدان میں اترے ہیں۔ انڈیا میں خواتین اور بچوں کی بہبود کی وزیر سمرتی ایرانی کا کہنا ہے کہ کرونا وباکے اثرات کا شکار ان بچوں کی مدد کے انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق اپریل اور مئی کے دوران پورے ملک میں 577 بچے اپنے والدین سے محروم ہو چکے ہیں۔

ملک میں مختلف تنظیمیں ان یتیم بچوں کو گھروں کا ماحول دینے کے لئے مصروف ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے بچوں کے اعداد و شمار اکٹھا کئے جا رہے ہیں تاکہ ان کی مدد کی جا سکے۔ لیکن سماجی کارکنو ں کاکہنا ہے کہ اس سلسلے میں حکومت کے قوانین اور سرخ فیتے کی روایات تاخیر کا باعث بن رہی ہیں۔ ان خامیوں کو دور کئے بغیر ملک میں بچوں کی بلاتاخیر مدد بہت مشکل نظر آتی ہے۔

پاکستان میں کم سن بچے زراعت اور اینٹوں کے بھٹوں کے علاوہ گھروں کی ملازمت اور دوسرے شعبوں میں مزدوری کرتے ہیں اور کرونا وائرس نے ان کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ وبا کے دوران یہ بچے جو پہلے ہی ہر قسم کے استحصال کا شکار تھے اب بے روزگاری کا مقابلہ بھی کر رہے ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کے مطابق پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت بچوں کی مزدوری کا ایک بڑا سبب ہے۔

جرمنی میں عالمی ریڈیو ’ڈوچ ویلے‘ نے اپنی ویب سائٹ پر پاکستان میں بچوں کے مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ: ”جنوبی ایشیا میں پاکستان، جہاں کم سن بچوں کی مزدوری ایک اہم مسئلہ ہے، کووڈ 19 نے ان بچوں کے مسائل میں مزید اضافہ کر دیاہے۔ اس دوران بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال کے پس منظر میں بچوں کی ایک بڑی تعداد محنت مزدوری پر مجبور ہو گئی ہے۔“

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اسد بٹ نے ریڈیو کی رپورٹر کو بتا یا کہ شہروں میں بچے عام طور پر ہوٹلوں، چھوٹی دکانوں اور لوگوں کے گھروں میں کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر بچے کرونا وائرس کے دوران اپنے ذریعہ معاش سے محروم ہو چکے ہیں۔ سماجی ادارے ان کی مدد تو کر رہے ہیں لیکن سرکار کے مقابلے میں ان کے وسائل بہت کم ہیں۔ ان کے نزدیک موجودہ حکومت صرف طاقتور لوگوں کا تحفظ چاہتی ہے اس لئے وہ زیادہ پر امید نہیں ہیں۔

پاکستان میں اب تک سوشل فاصلے اور لاک ڈاون کی زیادہ تر بحث کا محور ضعیف اوروہ لوگ ہیں جو دوسری مہلک بیماریوں میں گرفتار ہیں۔ لیکن کم سن بچوں پر اس خطرناک وبا کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، ان پر اب تک کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ کووڈ کے دوران بچوں اور ماوں کو ان بیماریوں سے بچاو کے ٹیکوں کے استعمال میں خاصی دشواریوں کا سامنا ہے جو عام حالات میں لوگوں کو میسر تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صحت عامہ کے فوائد سے نومولود بچوں اور ماوں کی ایک بڑی تعداددوسری اہم بیماریوں کے علاج سے بھی محروم ہے۔

خدشات تو یہ بھی ہیں کہ کروناوائرس کی نئی اقسام اب بچوں پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہیں اگرچہ اس معاملے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے اور وبا کی تیسری لہر کی لپیٹ میں بچے بھی آ سکتے ہیں۔ انگریزی اخبار ڈان کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال دس سال کی عمر کے بچوں میں کرونا کے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کے علاوہ پچھلے سات ماہ کے دوران دس سے بیس سال کی عمر کے بچوں میں کرونا کے کیسز میں بھی چار گنا اضافہ ہواہے۔

ریاستی پالیسیاں اور نو عمر مزدور

اقوام متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق دنیا میں ”152 بچے مزدوری کر رہے ہیں اور ان میں سے 72 ملین خطرناک ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ نہ صرف ان بچوں کے لئے کام کا ماحول خطرنا ک ہوتا جا رہا ہے بلکہ ان کے اوقات کار میں بھی بے حد اضافہ ہو رہا ہے۔“

یونیسیف اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی ایک حالیہ بریفینگ میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا نے خاندانوں کی آمدنی کو بے انتہا کم کر دیا ہے جس کی وجہ سے غریب طبقات میں بچوں کو بھی ملازمت کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ ان حالات مین زندہ رہنے کے لئے لوگ ہر حربہ آزمانا چاہتے ہیں جس میں بچوں کے لئے تعلیم کے حصول کے بجائے آمدنی زیادہ اہم ہو گئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق کچھ ملکوں میں غربت میں ایک فیصد اضافے کے نتیجے میں مزدور بچوں کی تعداد میں صفر اعشاریہ سات فیصد اضافہ ہوتا ہے۔

یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائرکٹر ہنرتا فور کا کہنا ہے کہ ”غربت میں اضافے، سماجی امداد میں کمی اور سکول بند ہونے کے بعد سے کم عمر بچے ذریعہ آمدنی کی تلاش میں مصروف ہیں۔ کووڈ کی وبا کے بعد ہمیں سوچنا پڑے گا کہ آنے والے دنوں میں اس قسم کی صورت حال سے کس طرح نبٹا جائے ۔ اس سلسلے میں تعلیم کے بہتر مواقع، سماجی تحفظ کے ذرائع اور بہتر معاشی نظا م کے ذریعے ہم ان وباوں کا بہتر طور پر مقابلہ کرسکتے ہیں۔“

وبا کے دوران سکولوں کی تعطیل ہے اور غریب خاندانوں کے اکثربچے والدین کا ہاتھ بٹانے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ گھر کا ماحول، معاشی بدحالی اور تعلیم کی کمی ان بچوں کے لئے نفسیاتی پیچیدگیاں پیدا کر رہی ہیں جن پر سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کو فوری توجہ دینا چاہئے۔

سکولوں کی عارضی تعطیل سے ایک اندازے کے مطابق 130 ملکوں میں ایک بلین بچے متاثر ہو رہے ہیں۔ ان بچوں کو دوبارہ تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لئے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کو تعلیم کے غیرروائتی طریقوں کو بروئے کار لانا ہو گا۔

نئے ماحول میں آن لائن تعلیمی سرگرمیوں سے اب شہروں میں رہنے والے بچے فائدہ اٹھا رہے ہیں جنہیں انٹرنٹ کی سہولتیں میسر ہیں۔ لیکن وہ بچے جنہیں یہ جدید سہولتیں میسر نہیں ہیں تعلیمی سرگرمیوں سے اب بھی باہر ہیں۔ انہیں سماجی اداروں اور سکولوں کے تعاون سے نئے نصاب کے تحت تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دینی چاہئے۔

امریکہ میں ان بچوں کے لئے جو سکول کی تعلیم مکمل نہ کرسکے ہوں ایسے پروگرام جود ہیں جو ان بچوں کو روائتی تعلیم سے ہٹ کر ایک متوازی ماڈل کے تحت تعلیم دیتے ہیں تاکہ وہ تھوڑی مدت میں میٹریکولیشن کے سرٹیفیکٹ حاصل کر سکیں۔ انہیں خصوصی نصاب کے تحت جسے ’جنرل ایجوکیشن ڈپلومہ‘ کہاجاتا ہے، سکول کی بارہ جماعتوں کے مساوی تعلیم دی جاتی ہے۔

اس ماڈل کی بنیاد پر مقامی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے نصاب ترتیب دئے جا سکتے ہیں اور فارغ اتحصیل بچوں کو سماج کا ایک مفید حصہ بنا یا جا سکتا ہے۔

دنیا کے اکثر ملکوں میں متاثرہ خاندانوں کو سرکاری امداد دی جا رہی ہے اور حکومتیں کم آمدنی والے خاندانوں کی مالی مدد کر رہی ہیں۔ مالی امداد کی نئی پالیسیا ں مرتب کرتے ہوئے سرکاری طور پر بچوں کی تعلیم اور تربیت کے خصوصی انتظامات کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا۔ ان ہنگامی حالات میں سرکاری اور سماجی ادارے مختلف انداز میں لوگوں کی مدد کرکے ان کی زندگی کوکچھ حد تک سہل بنا سکتے ہیں۔

بچوں کی صحت کے تحفظ کے لئے قومی سطح پر اقدامات اٹھانے کی فوری ضرورت ہے۔ صحت عامہ کے ادارے بچوں کی نفسیاتی بہبود کے لئے والدین اور سماجی کارکنوں کے تعاون سے پروگرام ترتیب دے سکتے ہیں۔ انڈیا کے نوبل انعام یافتہ بچوں کی مزدوری کے خلاف آواز اٹھانے والے سماجی کارکن کیلاش ستھیارتی کا کہنا ہے: ”گزشتہ کچھ عشروں کے دوران جو کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں ہم ان کو ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ بچے اب صرف اپنی بہبود کے دعوے نہیں سننا چاہتے، انہیں عملی کام نظر آنا چا ہیے اور وہ نتائج دیکھنا چاہتے ہیں۔“

آج ہم ایک انتہائی غیر مساوی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں کم سن بچے، خواتین اور افلاس کے مارے لوگ ہمارے سماجی نظام کا استحصال زدہ حصہ ہیں۔ کرونا وائرس اور دوسری وباوں نے ہمیں سکھا یا ہے کہ ان مسائل کا حل مقامی بھی ہے اور عالمی بھی۔ لیکن معاشرے میں پھیلی عدم مساوات ختم کئے بغیر ان مسائل کا حل نا ممکن نظر آتا ہے۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔