راولاکوٹ (حارث قدیر) پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں بجٹ اجلاس بجٹ پیش کئے بغیر ملتوی کر دیا گیا ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے فنڈز کی کٹوتی، محاصل میں امتیازی سلوک اور ترقیاتی کاموں میں مداخلت کے خاتمہ سمیت دیگر مسائل حل کرنے کیلئے 25 جون کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔
’جیو‘ کے مطابق مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں وزیراعظم فاروق حیدر کی قیادت میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنے دینے اور بجٹ منظور نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ بجٹ تجویز کابینہ اجلاس میں پیش کی گئی ہو اور کابینہ نے اسے منظور کرنے سے انکار کر دیا ہو۔
3 روز قبل جب بجٹ اجلاس کا آغاز ہوا تو وزیراعظم نے اجلاس میں پاکستان کی وفاقی حکومت پر فنڈز کی کٹوتی اور پی ٹی آئی کے امیدواران کی مہم پر فنڈز خرچ کئے جانے کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاجاً بجٹ پیش نہ کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد بجٹ اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔
مقامی حکومت کا موقف ہے کہ حکومت پاکستان نے بجٹ کا جو حصہ دینا تھا اس میں سے 5 ارب روپے کٹوتی کر تے ہوئے ایک خط کے ذریعے حکومت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ یہ 5 ارب روپے وفاقی وزارت امور کشمیر کی صوابدید پر خرچ کئے جائیں گے۔ تاہم خط کی نقل فراہم نہیں کی گئی۔
دوسری طرف دو ماہ قبل 6 اپریل کو ایک خط مقامی حکومت کو بھیجا گیا تھا، جس میں حکومت کو ہدایت کی گئی تھی کہ وفاقی پی ایس ڈی پی میں جو منصوبہ جات وزارت امور کشمیر کے ذریعے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں شروع کئے جائیں گے ان کی نگرانی، چیک اینڈ بیلنس، ٹینڈر یا پھر کسی بھی طرح کی عدالتی مداخلت مقامی حکومت کرنے کی مجاز نہیں ہو گی، نہ ہی کوئی محکمہ یا عدالت ان منصوبہ جات کی بابت کوئی اقدام کرنے کی مجاز ہو گی۔ ان منصوبہ جات کی ٹینڈرنگ سے تکمیل تک تمام نگرانی وزارت امور کشمیر ہی کرے گی۔ وزیراعظم کو بھی یہی خدشہ ہے کہ وزارت امور کشمیر ان فنڈز کو پی ٹی آئی کے امیدواران کی الیکشن مہم کیلئے خرچ کریگی۔
مقامی حکومت کا دوسرا مسئلہ گزشتہ بجٹ میں وفاقی حکومت کی جانب سے بڑے ترقیاتی منصوبوں کیلئے منظور کی گئی رقم پر ٹینڈر کا عمل روکنے کیلئے چیف سیکرٹری کی مداخلت سے متعلق ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ چیف سیکرٹری نے یہ ٹینڈر روک دیئے ہیں، منظور شدہ منصوبہ جات کے ٹینڈر نہ ہونے کی صورت میں اربوں روپے کے فنڈز لیپس ہو جائیں گے۔ انکا یہ خیال ہے کہ چیف سیکرٹری نے یہ اقدام حکومت پاکستان کی ہدایت پر کیا ہے۔
مقامی حکومت کا تیسرا مطالبہ ہائیڈل پاور پراجیکٹس کے وفاقی محاصل میں پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کیلئے ایک فیصد حصہ مختص کرنے کا فیصلہ واپس لیکر دیگر صوبوں کے برابر حصہ دیا جانا ہے۔ حکومت اس اقدام کو اس خطے کے عوام کے ساتھ امتیازی سلوک قرار دے رہی ہے۔
واضح رہے کہ مالیاتی خودمختاری اور آئینی اختیارات حاصل کئے جانے کے سلسلہ میں مقامی حکومت نے گزشتہ عرصہ میں بلند و بانگ دعوے کئے تھے لیکن موجودہ احتجاج ایک مرتبہ پھر ثابت کر رہا ہے کہ تمام آئینی ترامیم کے باوجود مقامی حکومت وزارت امور کشمیر، وفاقی حکومت اور وفاقی حکومت کے بھیجے گئے لینٹ افسروں کے سامنے بے بس ہے۔
گزشتہ بجٹ میں بھی مقامی حکومت نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ وفاقی حکومت نے 15 ارب روپے کی کٹوتی کر لی ہے لیکن ایک سال باقی رہنے کی وجہ سے وہ بجٹ پیش کیا گیا، وفاق کی طرف سے فنڈز کی کٹوتی کا بہانہ بنا کر آٹا کی قیمتوں میں بھاری اضافہ کیا گیا اور کچھ اہم منصوبہ جات کے فنڈز میں بھی کٹوتی کی گئی تھی۔
تاہم اس مرتبہ الیکشن شیڈول کا اعلان ہو گیا ہے، حکومت کا آخری بجٹ ہے جس وجہ سے یہ عمل عوامی حقوق کے دفاع سے زیادہ الیکشن کے دوران ہمدردی حاصل کرنے کا ایک بہانہ بھی ہے۔
دوسری طرف تحریک انصاف کی وفاقی حکومت بھی اس خطے میں حکومت سازی کے عمل کو یقینی بنانے کیلئے وزارت امور کشمیر کو مالیاتی طور پر توانا کرنا چاہتی ہے۔ اپریل میں وفاقی پی ایس ڈی پی کے منصوبہ جات کے سلسلہ میں بھیجے گئے حکم نامے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی حکومت قائم کرنے کیلئے پری پول دھاندلی کا راستہ اپنانے کی تیاری کر رہے ہیں اور اس عمل کیلئے فنڈز کا انتظام بھی کیا جا رہا ہے۔ اگر مقامی حکومت، عدالتی اور محکمہ جات ان ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی نہیں کریں گے تو ان منصوبوں کا گراؤنڈ پر تعمیرکیا جانا ممکن ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے کیونکہ کوئی بھی وفاقی ادارہ، عدالت یا محکمہ اس خطے میں براہ راست مداخلت نہیں کر سکتا۔ کوئی عدالت اس خطے کے تعمیراتی کاموں سے متعلق مقدمہ سماعت نہیں کر سکتی اور نہ ہی احتساب کے محکمہ جات کے دائرہ اختیار میں یہ علاقہ آتا ہے۔ اس وجہ سے مقامی اداروں کے نگرانی کرنے پر پابندی عائد کرنے کے بعد ان منصوبہ جات کی تعمیر کا عمل مشکوک ہو کر رہ جائیگا۔