اجمل بٹ
مندرجہ ذیل مضمون پہلی بار ’نیا زمانہ‘ میں شائع ہوا۔ حال ہی میں حکومت کی جانب سے سائنس اور صوفی ازم کے نام پر جامعات تعمیر کرنے کے بعد شروع ہونے والی بحث کے سیاق و سبا ق میں یہ مضمون مصنف کی اجازت سے یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔
صوفی کا لفظ کہاں سے آیا، اس کی کوئی واضح ’Etymology‘ نہیں ہے۔ یونانی زبان میں یہ لفظ ’Sophos‘ سے لیا گیا ہے جس کے لفظی معنی حکمت، روشن خیالی، سوچ فکر ہے۔ ایران میں ”اونی کپڑے“ پہننے والوں کو صوفی کہا جاتا ہے جو کہ بعد میں شیعہ نے صفوی ایمپائر 1501-1736ء میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
ہندوستان کے صوفیا محبت اور بھائی چارہ کے استعارے استعمال کرتے ہیں، خدا کی محبت سے رشتہ جوڑتے ہیں ”وحدت الوجود“ یعنی ہستی ایک ہے (انسان) کی بات کرتے ہیں لیکن عرب میں اللہ کا تصور یہ ہے کہ وہ کائنات سے اعلیحدہ ہے جو ایسے حکم چلاتا ہے جیسے کوئی بادشاہ!
انسانی تاریخ میں خداؤں کی بھرمار ہے کئی خداؤں سے ایک خدا کے تصور تک اور پھرصوفی ازم نے ہندوستان میں ”وحدت الوجود“ کے ذریعہ ہی عرب دنیا میں بائے جانے والے تصور خدا (واحدنیت) کو مضبوط کیا۔
صوفی، عقل اور وحی کے بجائے ’Mysticism‘، باطنی تجربہ، روحانیت، وجدان کی بنیاد پر خدا سے تعلق جوڑتے ہیں۔ ہندوؤں کے اپنشد کے مطابق دنیا میں وجود کی دوئی (Duallty) نہیں پائی جاتی۔ اصل حقیقت اور وجود ”برہما“ کا ہے باقی کائنات ”مایا“ ہے۔
عرب میں وجود حقیقی (اللہ) کے سوا کوئی دوسری چیز اپنا حقیقی وجود نہیں رکھتی اور اللہ سے جدا کائنات یا مخلوق کا تصور باطل ہے۔ یونانی فلسفہ میں اگرچہ مخلوق بظاہر خالق سے الگ ہے لیکن بااعتبار حقیقت خالق ہی مخلوق ہے اور مخلوق ہی خالق ہے۔ اس سے عیسائی عقیدہ ”مسیح خدا اور خدامسیح“ ہے ثابت ہو جاتا ہے۔
صوفی ازم کے متعلق ایک تصور یہ بھی ہے کہ اسلام کے پھیلاؤ کے وقت خاص طور پر ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کے توسیع پسند عزائم کے وقت اور اسلامی راسخ پسندی(Orthodoxy) اور شریعت کی پابندیوں اور اس عمل سے پیدا ہونے والی دشواریوں اور دوسرے مذاہب کے ساتھ دوستانہ رویے ہونے کے باعث صوفی ازم یا تصوف نے مدد دی یا پھر مسلمان حکمرانوں کے ظلم و ستم سے بچنے کا واحد ذریعہ تھا کہ گوشہ نشین ہو جاؤ اور لوگوں کو انفرادی طور پر عبادت اور ریاضت میں مصروف کردو اور طرز فکر کو اجتماعی شکل نہیں دی۔ یوں صوفی ازم نے برصغیر (ہندوستان) میں مذہب کو تو بچا لیا لیکن مغل سلطنت کوبچانے میں ناکام رہا۔
چودہویں اور پندرہویں صدی میں پیدا ہونے والے بابا گرونانک اور سنت کبیر داس نے ہندو تصوف (Mysticim) میں دیکھا لیکن شریعت پر عمل نہ کیا۔ ہندوستان میں صوفیا کی آمد محمود غزنوی کے حملے سے پہلے حضرت علی ہجویری (داتا گنج بخش 990-1097ء) کی آمد سے شروع ہوئی اور پھر نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی، شہاب الدین غوری کے حملے کے وقت 1142ء میں افغانستان سے تشریف لائے اور سمع، موسیقی اور رقص کو اختیار کیا جس سے زندگی میں ٹھہراؤ کی جگہ حرکت پیدا کی اور سامعین کومتاثر کرتے۔ اس سے صوفیا کو مقبول ہونے میں بڑی مدد ملی…لیکن یہ سب ’روحانی رومانیت‘ حاصل کرتے رہے۔ نقشبندی، چشتی، قادریہ، سہروردی، درویش، مولدالنبی مشہور سلسلے ہوئے۔ یہ سب صوفیا کی شخصیتوں کو مافوق الفطرت سمجھتے، انہیں خدا اور بند ے کے درمیان ایک وسیلہ تصور کرتے۔
صوفیا کی خانقاہیں نچلے طبقے کے لیے مرادیں پاتے اور سماجی پیداوار میں حصہ نہ ملنے کی کمی ان خانقاہوں میں میل جول نے پوری کردی۔ صوفیا کے ”وحدت الوجودی“ طبقے نے جب شریعت کی سختی اورتشدد، کی جگہ رواداری، آزاد خیالی، برابری، محبت کی تبلیغ کی توعلما ان کے خلاف ہو گئے اور انہوں نے حکومت وقت کی مدد سے ان کے اثر کوختم کرنے کی کوشش کی تو صوفیا نے ”تصوف اور شریعت“ کو ملا کر علما کے تابع کر دیا اس سے ”وحدت الشہود“ کے نظریہ نے مؤثر کردار ادا کیا۔
اس سے بنیاد پرستی کی جڑیں اور مضبوط ہو گئیں۔ ”وحدت الشہود“ کے نظریہ کے تحت مسلمانوں کو علیحدگی پر زور دیا۔ مجدد الف ثانی کی جانب سے مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے خلاف رد عمل شروع ہوا جو کہ شاہ ولی اللہ تک سلسلہ جاری رہا۔
نظام الدین اولیا (1238-1325ء) نے کئی حکمران خاندانوں، بادشاہوں اور ولی عہدوں کو دیکھا۔ خود کو کبھی ملوث نہ کیا۔ اس لحاظ سے صوفیا نے اپنی تعلیمات کے ذریعے مسلم حکمرانوں کے سیاسی نظام کوفائدہ پہنچایا۔
حکومت سے کسی قسم کاخطرہ مول نہیں لیا بلکہ اس سے چشم پوشی کرتے رہے۔ اگرچہ چند ایک نے مزاحمت کی۔ ان مزاحمتی صوفیوں کی شہادت کے بعد گدی نشینوں اور متولیوں نے ان شہیدوں کے مزاروں کو اپنا روزگار بنا لیا۔
ایک اقلیت کو چھوڑ کر، صوفیا کرام نچلے طبقے کو صبر، قناعت، عبادت، چلاکشی، مراقبے اور ذکر کا درس دیتے۔ صوفیا محروم طبقوں کے معاشی، سماجی نا آسودگی کا حل نہ دے پاتے۔ مریدوں کو دنیا کے بارے میں نفرت پیدا کرتے، معاشرے میں ہونیوالی ناانصافیوں کے خلاف لڑنے کی بجائے ان کو برداشت کرنے کا حوصلہ دیتے، معاشرے کے اونچ، نیچ، ذات پات کا جوفرق تھا اسے نہ مٹاسکے۔ یہ سب کچھ اس طرح قائم رہا۔ بغاوت، مزاحمت، جدوجہد، مقابلہ جیسے خیالات اپنے مقلدین کے دل سے نکال دیئے۔ صوفی ازم نے ہندوستان میں جمود کوبڑھایا۔ تبدیلی کے تمام جذبات کو سرد خانوں میں ٹھنڈا کر دیا۔
دارا شکوہ (1615-1659ء) جو مغل شہنشاہ شاہجان کا بیٹا تھا، کے علاوہ کسی بھی حکمران کے اندر تبدیلی کاجذبہ نہ پایا گیا۔ دارا کو اس کے بھائی اورنگزیب عالمگیر نے شہید کر دیا۔
مغلیہ دور میں صوفیا کو بہت عروج حاصل رہا۔ کسی پر حملہ یالشکر کشی کے روانہ ہوتے وقت اہم درگاہوں پر حاضری اور سلام عقیدت کا نذرانہ پیش کرتے۔ شہزادہ جہانگیر کی پیدائش پر اکبر اعظم نے معین الدین چشتی کے مزار پر حاضری دی۔ عہد مغلیہ کے زوال کے ساتھ ہی ان کی درگاہوں کی اہمیت میں کمی ہو گئی۔ متولیوں اور گدی نشینوں کے لیے درگاہیں محض آمدنی کا ذریعہ بن گئی۔
1857ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کی مدد کرنے پر ان گدی نشینوں اورمتولیوں کو زمینیں دی گئی اور انہیں مضبوط کیاجوکہ آگے جاکر انگریز ایمپائر کو مضبوط کرنے کا باعث بنے۔
قیام پاکستان کے بعد ہر دور میں انہیں خوب نوازا گیا۔ انہی گدی نشینوں سے گورنر، وزیر اعظم وزیر خارجہ جیسے عہدوں تک پہنچ گئے۔ متولی یا گدی نشین اپنے اپنے مرید ین کوایسے ہی خوش آمدید کہتے ہیں جیسے کہ ملٹی نیشنلز اپنے اپنے خریدار کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتی ہیں۔ انہوں نے آہستہ آہستہ درگاہ کو مسجد کے اندرضم کرلیا یہ شریعت اور طریقت کا انوکھا ملاپ تھا!
عوامی سطح پر بابابلھے شاہ، شاہ حسین، وارث شاہ، منصور حلاج، سرمد کو مقبولیت حاصل رہی۔ ان صوفیا نے ایک دوسرے کو تحفظ و تکریم دینے کے لیے قصہ کہانیاں مریدین میں سے مشہور کر رکھی تھیں۔
معین الدین چشتی کا حضرت داتا کامشہور شعر:
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
عزیز الدین پیرمکی کے گدی نشینوں نے یہ بات مشہور کر رکھی تھی یہ داتا ہجویری کے مرشد تھے۔ حکم تھا کہ مرشد کی قبر پر پہلے حاضری دو۔ لاہور میں بی بی پاک دامن کے مزار کے اوپر لکھا ہے: یہ وہ مقام ہے جہاں حضرت داتا حاضری کے لیے آیا کرتے تھے۔
اسی طرح حضرت سلطان باہو کے بارے میں ہے، مجھ سے پہلے میرے ماں باپ کی قبر پر (شور کوٹ) میں حاضری دو۔ اس طرح عوام کی طرف سے ہر مزار پر حاضری دینے سے آمدن اور عقیدت کا سلسلہ چل رہا ہے۔ بلھے شاہ اور ان کے استاد عنایت کی کہانیاں وغیرہ بھی مشہور ہیں۔ سیالکوٹ میں حضرت امام علی الحق کی کہانی مشہور ہے کہ ان کا سر اور دھڑ اس کے وقت کے ہندو راجہ کے خلاف لڑے تھا۔ دونوں حصوں کے الگ الگ مزار ہیں۔
صوفیا کی کرشمہ ساز شخصیت کی وہ تمام روحانی قوتیں اور مظاہرے ان کے ”وصال“ کے بعد ان کے حلقہ احباب میں اثر رکھتی، مابعد الطبیعاتی واقعات کا سہارا لیتے! قطب، ولی، ابدال، جیسے درجات ملتے۔
جب زائرین کی خواہشات یا منت قبول ہو جاتی تو ان کا اعتقاد اور بھی مستحکم ہو جاتا اور اگر منت قبول نہ ہوتی تو دوسری درگاہ کا رخ کرتے۔ صوفیا کی شاعری لوگوں کے دلوں پر براہ راست اثر انداز ہوتی۔ انہیں ”جذباتی“ طور پر متحرک کرتی۔
صوفی ازم اور صوفیا نے ہندوستان کے دوبڑے گروہوں ہندو اور مسلمانوں کی سیاسی کشمکش میں مسلمانوں کا ساتھ دیا جو کہ آخر کارہندوستان کی تقسیم کا باعث بنا اور ہندو، مسلم کشمکش کو حل کرنے میں ناکام رہا۔ ہندوؤں نے مسلمانوں کے تمام مزارات کو مان لیا جبکہ مسلمان اس کے برعکس رہے! آخری کوشش ”آریہ سماج“ کی تحریک جو تجدید تصوف اور تحریک انصاف کی شکل تھی، جس کامقصد، ہندو مسلم بداعتمادی کو کم کرنے کی آخری کوشش تھی۔
مسلم اکثریتی معاشرے کاعمومی المیہ رہا کہ مزاحمت کا عمل انفرادیت سے نکل کر وسیع نہیں ہوا۔ جب تک اجتماعیت نہیں ہو گی، تبدیلی نہیں آئے گی۔ فرد واحد کے گرد تاریخ اور واقعات نہیں گھومتے۔ ذہنی فکر اور عقل کے دباؤ کے تحت بدلانہ جائے تو معاشرے ”منجمد“ ہو جاتے ہیں۔
اکبر اعظم کے زمانہ سے ہندو، مسلم اشتراک کو مجدد الف ثانی (شیخ احمد سرہند) اور شاہ ولی اللہ (جنہوں نے احمد شاہ ابدالی کوہندوستان پر حملے کی دعوت دی) منتشر کیا۔
صوفی تحریک مغلیہ اقتدار کے خاتمے کے بعد غیر فعال ہو گئی ہے۔ جدید صوفی سرسید احمد خاں یاسر محمد اقبال نے ترقی پسند اور قدامت پسند اسلام کی نئی ترکیب بنائی جس میں ایک طرف جدید تعلیم اور دوسری طرف راسخ الاعتقادی کی حمایت کی گئی ہے۔
خدا کے تصور کے بغیر اکثر کوئی صوفی ازم اور صوفی تھا تووہ گوتم بدھا تھا۔ جس کی تحریک ہندوستان سے مشرق بعید کے ممالک کی طرف چلی۔