راولاکوٹ (حارث قدیر) عالمی بینک کے سابق مشیر عابد حسن نے ’ڈان‘ میں لکھے گئے ایک مضمون میں دعوی کیا ہے کہ ”پاکستان میں غریبوں سے ٹیکس جمع کر کے امیروں کو ٹیکس چھوٹ دی جاتی ہے، یہاں تک کہ قرض پر حاصل کی گئی رقوم سے بھی امیروں کو ٹیکس چھوٹ دینے کی روش اپنائی جاتی ہے۔“
”مالی سال 2020ء میں امیروں کو مجموعی طور پر 1.3 ہزار ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی، یہ رقم اس سال جمع ہونے والے کل ٹیکسوں کے ایک تہائی حصہ اور جی ڈی پی کے تین فیصد کے برابر تھی۔ اگر ان ٹیکسوں کو جمع کیا جاتا تو پاکستان اپنے سالانہ صحت اور تعلیم کے اخراجات کو دگنا کر سکتا تھا۔ یہاں تک کہ اگر ان ٹیکسوں کا آدھا حصہ جمع کیا جاتا تو احساس پروگرام میں تین بار اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر دو سال تک یہ ٹیکس جمع کیا جاتا تو بھاشا ڈیم اپنے وسائل سے تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ ہر سال ٹیکس میں چھوٹ تقریباً اسی تناسب سے ہوتی ہے۔“
فنانس بل کی تفصیلات کے مطابق ”مالی سال 2020ء میں ٹیکس چھوٹ سے اہم فائدہ اٹھانے والوں میں صنعت کار (110ارب روپے)، پولٹری (100 ارب روپے)، ٹیکسٹائل (80 ارب)، دوا ساز کمپنیاں (70 ارب)، خوردنی تیل کی صنعت (80 ارب روپے)، ڈیری (50 ارب)، کھاد (70 ارب روپے)، پٹرولیم سیکٹر (50 ارب)، بجلی گھر (30 ارب روپے)، زراعت (70 ارب) اور آٹو انڈسٹری (80 ارب روپے) شامل ہیں۔“