نقطہ نظر

افغان مستقبل کے لئے بائیں بازو اور جمہوریت پسندوں کو ملکر لڑنا ہو گا: یونس نگاہ

حارث قدیر

یونس نگاہ کہتے ہیں کہ امریکی انخلا کے بعد ایک بہتر اور خوشحال افغانستان کے قیام کےلئے افغان بائیں بازو ، جمہوریت پسندوں اور پڑھے لکھے افراد کو ملکر یونائیٹڈ فرنٹ کی پالیسی پر جدوجہد کو استوار کرنا ہو گا۔’ نان ایشوز کی بجائے عوام کی بنیادی مسائل کے حل کی جدوجہد ہی افغان عوام کے بہتر مستقبل کی بنیادیں رکھ سکتی ہے‘۔

یونس نگاہ افغانستان سے تعلق رکھنے والے بائیں بازو کے سرگرم رہنما اور ایک صحافی ہیں۔ وہ افغانستان امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ گزشتہ روز’روزنامہ جدوجہد‘ نے انکا ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:

چند دن قبل افغان آرمی کو اطلاع دیئے بغیر امریکہ نے بگرام ایئر بیس کو خالی کیا، اس سے یہ تاثر نہیں ابھر رہا کہ امریکہ خود طالبان کے قبضے کےلئے راہ ہموار کر رہا ہے؟

یونس نگاہ: افغانستان میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ طالبان کو اقتدار میں لانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے لیکن مین یہ سمجھتا ہوں کہ امریکہ ایسا نہیں کرے گا جیسے 3 دہائیں پہلے ہوا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ کابل انتظامیہ پر دباﺅ ڈال رہے ہیں تاکہ وہ طالبان سے بات چیت پر آمادہ ہوں اور انہیں حکومت میں شراکت دار بنائیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ امریکہ بھی افغانستان کو مکمل طور پر چھوڑ نہیں رہا، وہ یہاں رہے گا، افغانستان کے ارد گرد اپنے فضائی اڈوں کی شکل میں بھی موجود رہے گا اور امریکہ کے لوگ بھی افغانستان میں موجود رہیں گے۔

افغانستان سے ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ نجی ملیشیاﺅں کے بنانے کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے، اس میں کس حد تک صداقت ہے؟

یونس نگاہ: یہ بالکل حقیقت ہے۔ ملیشیاﺅں کو طالبان کے خلاف حکومت کی حمایت حاصل ہے، اس کے علاوہ بھی کچھ ملیشیا ہیں جو شمالی اتحاد اور مختلف نسلی گروہوں کے کمانڈرز کی اولادوں کی زیر قیادت کام کر رہی ہیں اور وہ صوبوں اور ریجنز میں اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

ڈاکٹر نجیب کی حکومت میں بھی ملیشیاﺅں کا وجود اور ایک ظالمانہ کردار رہا ہے، نئی ملیشیاﺅں کو کیسے دیکھتے ہیں، کیا انہیں عوامی حمایت حاصل ہے؟

یونس نگاہ: موجودہ ملیشیاﺅں کو بھی کوئی زیادہ عوامی حمایت حاصل نہیں ہے اور انکا کردار ہمیشہ سے ہی ظالمانہ رہا ہے۔ انکی دشمنیاں ہیں، علاقائی اور نسلی تنازعات ہیں جن کی وجہ سے وہ ماضی کی طرح ہی قتل عام میں ملوث رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔ تاہم وہ ابھی اتنے طاقتور نہیں ہیں جتنی ماضی میں ڈاکٹر نجیب کی حکومت کے وقت یا اس کے بعد تھے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اکثریتی عوام طالبان پر انحصار کر رہے ہیں یا پھر حکومت کی حمایت کرنے کا انتظار کر رہے ہیں ابھی ایک سیاسی خلا موجود ہے۔

افغان فوج کی کیا صورتحال ہے، کیا وہ طالبان کا سامنا کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہے؟

یونس نگاہ: افغان آرمی تکنیکی صلاحیت تو رکھتی ہے، انکے پاس افرادی قوت بھی ہے لیکن ان کے پاس کوئی قیادت موجود نہیں ہے۔ موجودہ وقت حکومت متحد نہیں ہے جس کی وجہ سے مسائل ہیں۔ حکومتی قائدین کے مابین بھی مسائل ہیں اور فوجی عہدیداروں میں بھی مسائل موجود ہیں جو پھر افغان فوج میں بھی جھلکتے ہیں۔

ایسی خبریں ہیں کہ ایک ہزار فوجی جوان تاجکستان فرار ہو گئے اور کچھ اضلاع میں طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ، اس کی کیا وجہ ہے؟

یونس نگاہ: یہ خبریں بالکل درست ہیں اور اسکی بڑی وجہ یہی ہے کہ گزشتہ 5 یا 6 سال سے افغان حکومت طالبان کے خلاف فوج کو اس طرح سے مدد فراہم نہیں کر رہی ہے۔ کچھ ایسی افواہیں بھی ہیں کہ حکومت کے کچھ طاقتور اشخاص فوج کی طالبان کے ساتھ جنگ کے خلاف ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ طالبان کچھ علاقوں پر اقتدار حاصل کریں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ علاقے نسلی اور لسانی طور پر مختلف ہیں اور مستقبل کے سیٹ اپ میں وہ طاقتور گروپس کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اشرف غنی اور کچھ دیگر لوگ چاہتے ہیں کہ ان علاقوں میں طالبان ہی قبضہ کر لیں تاکہ مستقبل کی حکومت میں انہیں کم سے کم مسائل ہوں۔ اس لئے فوج یہ سمجھتی ہے کہ انہیں حکومت کی حمایت حاصل نہیں ہے اور انکی قیادت ان کے ساتھ نہیں ہے، لہٰذا طالبان انہیں باآسانی شکست دے دیں گے۔

افغان آرمی کی بناوٹ میں نسلی تناسب کی کیا کیفیت ہے؟

یونس نگاہ: جب حالیہ افغان فوج کو قائم کیا گیا تھا اس وقت ’تاجک‘ نسلی گروہ اقتدار میں تھا اسی وجہ سے زیادہ تاجک فوج میں تھے اور افغان آرمی کا بیلنس پشتونوں کے خلاف تھا۔ تاہم اشرف غنی نے یہ بیلنس کافی حد تک تبدیل کیا ہے۔ ابھی بھی تاجک فوجیوں کی ایک بڑی تعداد فوج میں موجود ہے لیکن پشتون اکثریت میں ہیں اور ہزارہ اور ازبک بہت کم ہیں۔

فوج کی اس بناوٹ کی وجہ سے پشتونوں اور دیگر نسلی گروہوں کے مابین خانہ جنگی کے امکانات کس حد تک ہیں؟

یونس نگاہ: اگر امریکہ کو افغانستان کی مستقبل میں بھی ضرورت ہے اور نئی حکومت کے بننے میں زیادہ مداخلت نہیں کرتا تو خانہ جنگی کا امکان زیادہ ہے کیونکہ حکومتی عہدیداروں، طالبان اور شمالی اتحاد کے مابین بہت سی دشمنیاں ہیں۔ نان پشتون یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان ایک پشتون پراجیکٹ ہے۔ طالبان بھی جب نان پشتون علاقوں میں جاتے رہے تو انکی تاریخ بھی کافی سیاہ رہی ہے۔ انہوں نے درخت کاٹے، گاﺅں جلائے، لوگوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا، اس لئے انتہائی تلخ یادیں موجود ہیں۔

اگر افغانستان میں خانہ جنگی ہوئی تو آپ کے خیال میں اسکے کیا نتائج ہونگے؟

یونس نگاہ: میرا خیال ہے کہ خانہ جنگی نہیں ہو گی کیونکہ امریکہ کی بھاری سرمایہ کاری موجود ہے اوروہ اسے تحفظ دینگے۔ میرا خیال ہے کہ وہ ایسے نہیں چھوڑیں گے انکی سرمایہ کاری موجود رہے گی، شاید انکی فوج اس طرح سے موجود نہیں رہے گی۔ میرا خیال ہے کہ وہ ایسا خلا بھی نہیں چھوڑ سکتے جسے چین، روس، ایران اور دیگر پر کریں۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ 5 سے 6 ماہ بعد موجودہ صورتحال میں کافی تبدیلی آئیگی، طالبان پر مزید دباﺅ ہو گا کہ وہ مذاکرات کریں اور امن کےلئے کام کریں۔

افغانستان کے بڑے شہروں میں لوگوں کے مسائل کیا ہیں اوروہ مستقبل کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

یونس نگاہ: کابل، ہرات، جلال آباد اور دیگر بڑے شہروں میں سب سے بڑا مسئلہ غربت اور بیروزگاری ہے۔ ہزاروں، لاکھوں لوگ بیروزگار ہیں۔ جب تک امریکہ موجود تھا اس وقت تک لاکھوں ڈالرز کی امداد آ رہی تھی جس پر پورا ایک سروسز کا شعبہ موجود تھا لیکن اب وہ سب ختم ہو رہا ہے جس سے مڈل کلاس بہت زیادہ مشکلات سے دوچار ہوگی، مہنگائی میں اضافہ ہو گا۔ ہمارے پاس بہت زیادہ فیکٹریاں نہیں ہیں، سروسز کے شعبے پر ہی زیادہ انحصار ہے جو بیرونی سرمائے کی وجہ سے چل رہا تھا اور اب ختم ہو جائیگا۔

افغانستان میں بے گھر لوگوں کی تعداد کتنی ہے، کتنے لوگ کیمپوں میں رہتے ہیں؟

یونس نگاہ: میرے پاس کوئی مستند اعداد وشمار تو موجود نہیں ہیں لیکن لاکھوں کی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو بے گھر ہیں، دیہاتوں سے ہجرت کر کے شہروں میں آئے ہوئے ہیں اور شہروں کے ارد گرد کیمپوں اور جھونپڑیوں میں رہائش پذیر ہیں۔ یہ لوگ انتہائی کربناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

افغان حکومت مستقبل کے افغانستان کے حوالے سے لوگوں کو کیا پیغام دے رہی ہے؟

یونس نگاہ: حکومت کے پاس کوئی واضح پالیسی موجود نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ابھی تک حکومت اپنی عوام کو کئی واضح پیغام دینے میں مکمل طو رپر ناکام رہی ہے۔ لوگ اب حکمرانوں پر یقین بھی نہیں کر رہے ہیں، وہ مذاکرات کا انتظار کر رہے ہیں لیکن انہیں یہ یقین بھی نہیں ہے کہ یہ حکومت طالبان کے خلاف لڑ سکتی ہے یا انکا دفاع کر سکتی ہے۔

افغان میڈیا پر آج کل کس طرح کے مباحثے ہو رہے ہیں، میڈیا مستقبل کے حوالے سے مجموعی تاثر کیا دے رہا ہے؟

یونس نگاہ: افغان میڈیا پر بھی زیادہ تر نسلی، لسانی اور گروہی تقسیم کے گرد ہی گفتگو ہو رہی ہے۔ کسی حد تک غربت، جمہوریت اور آزادی اظہار وغیرہ بھی میڈیا کی بحث کا حصہ ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ شہری آبادی سیاسی مستقبل کےلئے کافی فکر مند ہے، آزادی اظہار رائے، جمہوریت اور شہری آزادیوں کے حوالے سے فکر مند ہے لیکن دیہی علاقوں کے لوگوں کا اس سب سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ دیہی آبادی کا مسئلہ بچوں کی تعلیم، انکا بہتر مستقبل، جنگ کا خاتمہ اور امن کا قیام ہے۔ دیہی آبادی شاید ایسی حکومت کی حمایت کریں جو زیادہ ’طالبانائز‘ اور کم جمہوری ہو لیکن شہری علاقوں کے لوگ کم سے کم ’طالبانائزڈ ‘حکومت کےلئے جدوجہد کریں گے۔

افغانستان میں بائیں بازو کی تنظیموں کی صورتحال کیا ہے اوروہ کیا سوچ رہی ہیں؟

یونس نگاہ: افغانستان میں بایاں بازو لاکھوں افراد پر مشتمل ہے لیکن انکا لوکل میڈیا میں کوئی بیانیہ یا تذکرہ موجود نہیں ہے۔ وہ گراﺅنڈ پر نہیں ہیں، سیاست میں نہیں ہیں، لوکل میڈیا میں نہیں ہیں، محض اپنا میڈیا اور خصوصی گروپس کی شکل میں موجود ہیں، جس کی وجہ سے مین سٹریم کے ساتھ اور عوام کے ساتھ اس طرح سے جڑے ہوئے نہیں ہیں۔ کچھ چھوٹے گروپس اور تنظیمیں ہیں جن کے دفاتر موجود ہیں، ویب سائٹس بھی کام کر رہی ہیں لیکن وہ سیاست میں اس طرح سے سرگرم بھی نہیں ہیں اور متحد بھی نہیں ہیں۔ کچھ گروپ حکومت کے خلاف کچھ، امریکی موجودگی کے خلاف، کچھ طالبان کے خلاف اور کچھ نسلی گروہ بندی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔

افغانستان کے حوالے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی ایسا ’ون پوائنٹ‘ ایجنڈا ہو سکتا ہے جس پر پورے افغانستان کو متحد کیا جا سکے؟

یونس نگاہ: بد قسمتی سے یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ افغان عوام مختلف ادوار میں رہ رہے ہیں۔ کچھ یقین رکھتے ہیں کہ وہ چھٹی اور ساتویں صدی سے تعلق رکھتے ہیں، کچھ کے خیال میں افغانوں کو احمد شاہ ابدالی کے اصولوں پر کاربند ہونا چاہیے اور کچھ چاہتے ہیں کہ اکیسویں صدی کے معیار کے مطابق رہنا چاہیے۔ مختلف نسلی اور لسانی تصادات ہیں، مختلف شہروں اور مختلف ریجنز کے درمیان اختلافات ہیں اور کوئی ایک متفقہ بیانیہ موجود نہیں ہے۔

شہری علاقوں کی خواتین اپنے حقوق کےلئے کافی سرگرم رہی ہیں، اس وقت شہری خواتین اور دیہی خواتین مستقبل سے متعلق کیا سوچتی ہیں؟

یونس نگاہ: کچھ خواتین سرگرم کارکنان این جی اوز میں اور کچھ مقامی خواتین گروپوں کی شکل میں موجود ہیں ۔ ان گروپوں کے اپنے میگزین ہیں، ویب سائٹس ہیں اور خواتین کے حقوق کےلئے کام بھی کر رہی ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ کچھ دن قبل ایک خواتین کے گروپ نے طالبان کے ایک گروپ کی قیادت کے ساتھ آن لائن گفتگو بھی کی ہے اور ان کی اخلاقی اقدار سے متعلق پالیسی پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ انہوں نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ طالبان اب کیا چاہتے ہیں، حکومت میں آکر ان کی خواتین سے متعلق کیا پالیسی ہو گی، انہیں کام کی اجازت ہوگی یا نہیں ہو گی۔ اس بات چیت کے بعد خواتین کا خیال ہے کہ طالبان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور ابھی بھی وہ وہی نعرے دہرا رہے ہیں۔ تعلیم یافتہ خواتین ہزاروں میں موجود ہیں جو کام بھی کر رہی ہیں، لکھ رہی ہیں اور امریکہ، مقامی حکومت اور طالبان کے ساتھ رابطے بھی کر رہی ہیں۔ تاہم وہ اتنی طاقتور نہیں ہیں کہ وہ اپنے حقوق کےلئے کوئی بڑی لڑائی کر سکیں۔ حتمی طور پر طالبان، حکومت اور امریکہ ہی اس طاقت کے حامل ہیں جو خواتین کے حقوق سے متعلق فیصلہ کرینگے۔

عام لوگوں کو اس وقت کس قسم کے مسائل کا سامنا ہے؟

یونس نگاہ: اس وقت تو سب سے بڑا مسئلہ غربت اور بیروزگاری ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے، لوگ اس سے پریشان ہیں۔ ہزاروں لوگ روزانہ غربت کی لکیر سے نیچے گر رہے ہیں، لوگ بھیک مانگنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ اب بڑے شہروں میں بھکاریوں کی تعداد میں ایک حیران کن اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ کی موجودگی کی وجہ سے لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آ چکی ہے وہ اب صرف زندہ رہنے کیلئے خوراک سے بھی زیادہ چاہتے ہیں۔ امریکہ کی موجودگی میں کسی حد تک شہروں میں کچھ آمدن رہی ہے لیکن اب وہ سب کچھ نہیں ہے۔ کابل سمیت دیگر بڑے شہروں میں بھی اکثریتی عوام اپنی اور بچوں کی خوراک پوری کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔ میں گزشتہ دنوں کابل گیا تھا وہاں یہ سب مسائل حیران کن تھے۔

امریکہ کے افغانستان پر حملے سے پہلے اور بعد کے حالات میں کیا واضح فرق قرار دیا جا سکتا ہے؟

یونس نگاہ: آج وہ صورتحال تو نہیں ہے جو عوام چاہتے تھے، یا یوں کہہ لیں کہ امریکہ نے بھی کچھ اچھا نہیں کیا لیکن امریکہ کی آمد کے بعد کا افغانستان پہلے سے بہتر ہی ہے۔ لوگ پہلے سے زیادہ پڑھے لکھے ہیں، وہ اب بڑا سوچتے ہیں، اچھی چیزوں کی خواہش رکھتے ہیں، اچھی زندگی کی خواہش رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے جو ایک بہتر افغانستان کےلئے جدوجہد کر سکتے ہیں۔ لاکھوں ایسے لوگ ہیں جو بہتر زندگی کے بارے میں کم از کم جانتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ لوگ اب ایک بہتر افغانستان کےلئے کردار ادا کریں گے۔ اگر طالبان طاقت میں آتے بھی ہیں تو انکے لئے اقتدار اتنا آسان نہیں ہو گا، وہ بہت سے مسائل کا سامنا کریں گے، یہ ان کےلئے ایک چیلنج سے کم نہیں ہو گا۔

افغانستان میں روزگار کے کون سے ذرائع موجود ہیں اور امریکہ نے کیا تبدیلیاں لائیں؟

یونس نگاہ: امریکہ اور موجودہ حکومت نے کچھ نہیں کیا، امریکہ کی موجودگی کی وجہ سے کچھ سروسز کے شعبے قائم ہوئے اور اب جب وہ جا رہے ہیں تو وہ شعبے بھی ختم ہو جائیں گے۔ افغانستان میں کوئی بڑی فیکٹریاں اور کارخانے نہیں ہیں۔ چند شہروں میں چھوٹے فیکٹریاں محدود تعداد میں موجود ہیں۔ اکثریتی عوام کے روزگار کا انحصار زراعت پر ہے لیکن وہ بھی جدید تقاضوں سے استوار نہیں ہوئی ہے، غربت کی ایک بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ مائننگ کے کوئی بڑے منصوبے بھی نہیں ہیں۔

ایک بہتر، خود مختار اور آزاد افغانستان کےلئے آپ کے خیال میں کیا اقدامات ضروری ہیں؟

یونس نگاہ: میرے پاس حکومت کےلئے کوئی پیغام تو نہیں ہے اور نہ ہی میں کچھ مطالبہ کرنا چاہتا ہوں، وہ جو چاہتے ہیں فیصلے کریں البتہ میں عوام سے یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ وہ افغانستان کو چھوڑکر بھاگنے کی بجائے متحد ہوں۔ ہم نے ایسے حالات کا امان اللہ کے دور سے لیکر مختلف ادوار میں سامنا کیا ہے ۔ جب بھی ایسا وقت آتا ہے وہ لوگ افغانستان کو چھوڑ کر جانے کی تاریخ رکھتے ہیں جو افغانستان کی بہتری کےلئے جدوجہد کر سکتے ہیں۔ وہ لوگ لڑتے نہیں، وہ پارٹیاں نہیں بناتے، جدوجہد نہیں کرتے، لیکن اب ہمارے پاس ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، ہمارے پاس میڈیا ہے، حالات تبدیل ہو چکے ہیں، ہم مل کر ایک بہتر افغانستان کے قیام کےلئے جدوجہد کرنے کو پہلے سے زیادہ تیار ہیں، ہم اکثریت میں ہیں۔ اگر ہمارے اندر لوگوں کے ساتھ بات کرنے کا حوصلہ ہے تو ہمیں ضروری اکثریت ضرور ملے گی اور اسی صورت ہم تبدیلی لا سکتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ اس وقت یہی ہے کہ تعلیم یافتہ بائیں بازو کے لوگ، ڈیموکریٹس اور مڈل کلاس کے افراد مل کر جدوجہد نہیں کر رہے ہیں۔ وہ یونائیٹڈ فرنٹس قائم نہیں کر رہے توکہ جدوجہد کو مشترکہ بنیادوں پر استوار کیا جا سکے لیکن مجھے یقین ہے کہ اس مرتبہ ہم کچھ مختلف ضرور کریں گے۔

آپ کے خیال میں کس طرح کی تبدیلیاں ایک بہتر افغانستان بنانے میں کارگر ہو سکتی ہیں اور طالبان کی موجودگی میں یہ سب کیسے ممکن ہے؟

یونس نگاہ: سب سے پہلے تو ہمیں جنگ ختم کرنا ہوگی، جنگ کے ساتھ کچھ بھی نہیں چل سکتا۔ ہمیں طے کرنا ہو گا کہ کیسے اس جنگ کو ختم کیا جائے۔ جنگ کے بعد افغانستان کو پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات اور مسائل ختم کرکے ڈویلپمنٹ پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ اس وقت جو سیاست ہے وہ لوگوں کی روز مرہ زندگی سے جڑی ہوئی نہیں ہے۔ ڈیورنڈ لائن، تاجکستان، ازبکستان، فارسی، پشتون تقسیم وغیرہ جیسے مسائل جن کے گرد سیاست ہو رہی ہے یہ عام لوگوں کی زندگی کو متاثر نہیں کر رہے ہیں، یہ ایشوز سیاستدانوں کی طرف سے بنائے گئے ہیں۔ تعلیم یافتہ افراد کو حکومت پر دباﺅ ڈالنا چاہیے کہ وہ پاکستان، ایران اور دیگر کےساتھ بات چیت کریں اور سرحدی ایشوز حل کریں اور سرحدوں کے آر پار رہنے والے انسانوں کے مسائل کے حل کے حوالے سے سنجیدگی اختیار کریں۔ بنیادی مسائل کے حل کے حوالے سے اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔ یہ سب ممکن ہے اگر لوگ اس کےلئے مل کر کام کریں اور جدوجہد کریں۔ طالبان بھی تبدیل ہو سکتے ہیں، جب عوام تبدیل ہونگے تو سب کچھ تبدیل ہو سکتا ہے۔ عوامی دباﺅ حکومتوں میں تبدیلیاں لے آتا ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔