لاہور (جدوجہد رپورٹ) انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) نے جانی خیل بنوں میں احتجاجی دھرنے میں شریک قبائلی افراد کو انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی ہے۔ جاری کی گئی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ”دھرنے میں شریک قبائلی 4 نوجوانوں کے قتل اور ان کی نعشیں ٹھکانے لگانے کے وقوعے میں انصاف کو یقینی بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ریاست کو شہریوں کے حق زندگی کو محفوظ بنانا ہو گا، خاص طور پر ایسے علاقے میں جسے غیر ریاستی عناصر نے اپنے تشدد کا بنیادی ہدف بنایا ہوا ہے۔“
واضح رہے کہ ضلع بنوں کے جانی خیل علاقے میں چار نوجوانوں کو قتل کر کے دفن کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کے مطالبہ کے گرد احتجاجی دھرنا جانی خیل روڈ پر قلعے کے قریب دیا گیا ہے۔ احتجاجی دھرنے میں بڑی تعداد میں لوگ بیٹھے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت ان لڑکوں کو ہلاک کرنے والے افراد کی نشاندہی کرے۔ ہلاک ہونے والے لڑکے احمد کے چچا ڈاکٹر سبحان ولی نے بی بی سی کو بتایا کہ انکا دھرنا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کئے جاتے۔
انکا کہناتھا کہ ”حکومت ’قاتلوں کی نشاندہی کرے، انھیں گرفتار کر کے سزا دے اور سکیورٹی کے ذمہ دار افراد سے پوچھا جائے، کیونکہ جہاں سے یہ لاشیں ملی ہیں اس کے قریب چوکیاں موجود ہیں۔ واقعے پر علاقے کے تمام لوگ غمزدہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سب لوگ اس دھرنے میں شریک ہیں۔“
یہ واقعہ گزشتہ اتوار کو پیش آیا جب چار لڑکوں، جن کی عمریں 13 اور 17 سال کے درمیان بتائی گئی ہیں، کی لاشیں جانی خیل کے علاقہ میں ایک ندی کے قریب قبرستان سے ملیں۔ ان لڑکوں کی شناخت احمد اللہ خان، محمد رحیم، رفعام اللہ اور عاطف اللہ کے ناموں سے ہوئی ہے۔
سبحان ولی کا کہنا تھا کہ ”چاروں لڑکے شکار کے لیے گئے تھے، ان کے ساتھ کتے بھی تھے۔ لیکن لڑکے واپس گھروں کو نہیں آئے۔ ان لڑکوں کے رشتہ داروں اور علاقے کے لوگوں نے ان کی تلاش کی لیکن کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔ اتوار کے روز ایک چرواہا اس علاقے میں مویشی لے کر گیا تو وہاں آوراہ کتوں نے زمین میں لاشوں کی نشاندہی کی جس پر اس بارے میں علاقے کے لوگوں کو بتایا گیا۔ اس اطلاع پر ان افراد کے اہل خانہ اور دیگر مقامی لوگ موقع پر پہنچے اور لاشوں کی شناخت کی ہے۔ ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں معلوم ہے کہ لڑکوں کو کس نے مارا ہے، اس لیے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان قاتلوں کو منظر عام پر لایا جائے۔“