حارث قدیر
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے عام انتخابات رواں ماہ 25 جولائی کو ہو رہے ہیں۔ انتخابات میں حصہ لینے کیلئے جموں کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے حلف نامہ پر دستخط کرنے کی لازمی شرط کی وجہ سے قوم پرست جماعتیں منقسم حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں۔
ماضی میں دائیں بازو کی قوم پرست سمجھی جانیوالی جماعتیں محاذ رائے شماری اور لبریشن لیگ انتخابات میں حصہ لیتی رہی ہیں جبکہ قوم پرست جماعت اور نوے کی دہائی میں مسلح تحریک کی وجہ سے مقبولیت حاصل کرنے والی جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے شروع دن سے ہی عام انتخابات کے بائیکاٹ کی پالیسی اپنائی۔ اسی طرح بائیں بازو کے نظریات اور رجحانات کی حامل ترقی پسند قوم پرست کہلانے والی سیاسی جماعتیں اس معاملے پر ہمیشہ سے ہی منقسم رہی ہیں۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں متبادل نظریات کی حامل یہ جماعتیں انتخابات میں حصہ لیکر یا بائیکاٹ کر کے کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کر سکی ہیں۔ موجودہ انتخابات میں ’جموں کشمیر نیشنل عوامی پارٹی‘نے سب سے زیادہ 9 امیدواران کو تینوں ڈویژن سے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے نامزد کیا ہے۔ ’جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی‘ کا ایک امیدوار عوام دوست اتحاد کے نام سے میدان میں ہے، ’جموں کشمیر نیشنل عوامی پارٹی‘کے اور دھڑے نے بھی 2 امیدواران کو میدان میں اتارا ہے، دیوبند مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی حال ہی میں قائم ہونے والی مذہبی قوم پرست جماعت ’سروراجیہ انقلابی پارٹی‘ نے بھی 3 امیدواران کو نامزد کیا ہے، ’جموں کشمیر عوامی ورکرز پارٹی‘ کی جانب سے بھی راولاکوٹ اور کوٹلی سے دو امیدواران کو نامزد کر رکھا ہے اورجموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے قوم پرست دھڑے کے رکن ایک امیدوار بھی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس طرح مجموعی طور پر 18 امیدواران ایسے ہیں جو قوم پرست، ترقی پسند یا مذہبی قوم پرست جماعتوں کی طرف سے نامزد کئے گئے ہیں۔
ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے تینوں دھڑوں سمیت دیگرچند قوم پرست جماعتوں نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے۔ تاہم سردار محمد صغیر خان ایڈووکیٹ کی سربراہی میں بائیں بازو کے نظریات مستعار لینے والے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے دھڑے کے علاوہ عملی بنیادوں پرانتخابات کے بائیکاٹ کے حوالے سے کسی احتجاجی پروگرام کا اعلان تاحال نہیں کیا گیا ہے۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے پاکستان سے آپریٹ کرنے والی جماعتوں کی قیادت کی پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں آمد کے مواقعوں پر احتجاجی ریلیوں کے انعقاد اور انتخابات کے روز مختلف شہروں میں احتجاجی دھرنے دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔
انتخابات میں حصہ لینے کی سابقہ کارکردگی کو سامنے رکھا جائے تو محض پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی بااختیار حکومت کے قیام کے لئے کام کرنے والی قوم پرست جماعت لبریشن لیگ کو 70 کی دہائی میں بنیادی جمہوریت کے تحت ہونے والے صدارتی انتخابات میں ایک مرتبہ فتح حاصل ہوئی تھی جبکہ ریاست جموں کشمیر کی مکمل آزادی اور خودمختاری کی بات کرنے والی کسی جماعت کا کوئی بھی نمائندہ کبھی بھی انتخابی سیاست میں ایک حلقہ جیتنے کا اہل بھی نہیں ہو سکا ہے۔ اسی طرح بائیکاٹ کی مہم کیلئے ہونے والے احتجاج کے دوران کسی حد تک لا اینڈ آرڈر کی صورتحال تو پیدا کی گئی لیکن انتخابات کے بائیکاٹ کیلئے عوامی حمایت بھی حاصل کرنے میں یہ جماعتیں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ موجودہ انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کے امیدواروں کو بھی خاطر خواہ نتائج کی توقع نہیں ہے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں عمومی رجحان تو وفاق پاکستان میں اقتدار والی جماعت کی طرف ہی ہوتا ہے۔ تاہم کچھ حلقوں میں دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی نشستیں ملتی ہیں جو عمومی طو رپر الیکٹیبلز کی بنیاد پر ہی یہ فتح حاصل کرتی ہیں۔ ایک پسماندہ اورنیم قبائلی معاشرہ ہونے کی وجہ سے اکثریتی حلقہ جات میں قبیلوں اور برادریوں کی بنیاد پر ہی انتخابات لڑے جاتے ہیں، جبکہ کچھ حلقوں میں جہاں ایک ہی قبیلے یا برادری کے لوگ موجود ہیں، وہاں ان قبیلوں کے مال و دولت یا اراضی و رشتے داریوں کی وجہ سے طاقت کے حامل افراد ہی انتخابات میں فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کسی بھی طرح کے متبادل نظریات یا پروگرام کیلئے سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کو عمومی طور پر سیاست کی نرسی کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے اور مقبولیت حاصل کرنے کے بعد کسی روایتی جماعت کا انتخاب کرتے ہوئے پارلیمانی سیاست کی طرف رخ کیا جاتا ہے۔ انتخابی سیاست کے حوالے سے واضح اور دو ٹوک نظری و فکری پروگرام کی عدم موجودگی بھی متبادل سیاست کرنے والے گروہوں اور جماعتوں کی مسلسل ناکامی کی ایک بڑی وجہ قرار دی جا سکتی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں سوائے چند غیر معمولی واقعات کے عمومی طور پر ہر انتخاب طاقت اور دولت کی بنیاد پر ہی جیتا اور ہارا جاتا ہے۔ جہاں محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو محض پانچ سال میں اپنا استحصال کرنے والے کسی ایک گروہ کا انتخاب کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے وہاں معمول کے حالات میں محنت کش طبقہ بھی طاقتور کے سامنے سرنگوں رہنے میں ہی عافیت سمجھتا اور حالات سے ہر ممکن حد تک سمجھوتا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تاہم تاریخ کی گھڑیوں میں وہ فیصلہ کن لمحات بھی آتے ہیں جب محنت کش طبقہ ماضی کے ہر برج، ہر مینارے کو پاؤں تلے روندتے ہوئے تاریخ اور اپنے مقدر کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے۔ ان فیصلہ کن اور غیر معمولی ادوار میں ہاتھوں سے ووٹ دینے کی بجائے پاؤں سے ووٹ دیئے اور فیصلے کئے جاتے ہیں۔
انقلابی جدوجہد میں شامل ہر منظم تنظیم اور قیادت کو ان فیصلہ کن لمحات کی تیاری کے تسلسل کے طور پر پارلیمانی شعبے کو بھی استوار کرنا ہوتا ہے۔ یہ عمل کبھی بھی سیدھی لکیر میں یا آئیڈیل حالات کے تحت استوار نہیں کیا جا سکتا بلکہ کٹھن اور دشوار حالات اور سخت پابندیوں سے راستے نکالتے ہوئے پارلیمانی شعبے کو منظم اور مضبوط کیا جاتا ہے۔ اسی دوران غیر معمولی واقعات اور حادثات کی صورت میں انقلابی قیادتیں سرمایہ دارانہ پارلیمان کا حصہ بھی بنتی ہیں اور اس پارلیمان کو بے نقاب کرتے ہوئے محنت کش طبقے کو حقیقی متبادل کیلئے نہ صرف تیار کرتی ہیں بلکہ اس منزل کے حصول میں اپنے طبقے کی رہنمائی کا فریضہ بھی سرانجام دیتی ہیں۔ تاریخ کے فیصلہ کن موڑ میں جس کی تیاری جدید سائنسی نظریات، درست تناظر اور حکمت عملی کی بنیاد پر مکمل ہوگی وہی انسانیت کی فتح کا ضامن ہو گا۔