خبریں/تبصرے

جموں کشمیر انتخابات: پاکستانی مین سٹریم پارٹیاں نو آبادیاتی کنٹرول کو مستحکم کرتی ہیں؟

حارث قدیر

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے عام انتخابات میں مدمقابل صف اؤل کی سیاسی جماعتوں میں پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی شامل ہیں۔ ایک وقت میں یہاں مقبول سمجھی جانیوالی آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس، جموں کشمیر لبریشن لیگ اور آزاد مسلم کانفرنس سمیت دیگر مقامی جماعتیں اب تقریباً ختم ہو چکی ہیں، آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس اور نوے کی دہائی میں قائم ہونے والی جموں کشمیر پیپلز پارٹی محض چند نشستوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی انتخابی سیاست میں پاکستانی حکمران طبقے کی مداخلت تو روز اؤل سے رہی ہے لیکن بتدریج پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی شاخیں قائم کرنے کیلئے سیاسی عمل میں متحرک مقامی سیاسی جماعتوں کے اندر ہی توڑ پھوڑ کا عمل شروع کیا۔ اس عمل کی داغ بیل پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت نے رکھی اور 1972ء کے اواخر میں ایک کنونشن کے ذریعے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی۔ بعد ازاں مذہبی جماعتوں نے بھی اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور جماعت اسلامی اور جمعیت علما اسلام کی بنیادیں بھی رکھی گئیں تاہم ان دونوں جماعتوں کی مقامی قیادتیں پاکستان میں موجود قیادت کے ڈسپلن سے اپنے آپ کو آزاد قرار دیتی رہیں لیکن عملی طور پر ایسا نہیں تھا۔

ماضی میں وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کے براہ راست اقتدار اور مقامی حکمرانوں کو نامزد و برطرف کرنے کے اختیار کے باعث پاکستان کے وفاق میں حکمران جماعتوں اور اشرافیہ کو اس خطے میں سیاسی سرگرمی کرنے کی اس قدر ضرورت بھی موجود نہیں تھی۔ تاہم 1973ء کے آئین پاکستان کی منظوری اور بعد ازاں پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ایکٹ 1974ء کے ذریعے پارلیمانی نظام حکومت کے نفاذ کے بعدپاکستانی حکمرانوں اور اشرافیہ کیلئے یہ بدتریج ناگزیر ہوتا گیا کہ وہ مقامی سطح پر اپنے نو آبادیاتی کنٹرول کو مستحکم رکھنے کیلئے وفاق میں سرگرم سیاسی جماعتوں کو اس خطے میں بھی مضبوط کرتے جائیں۔ پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد پاکستان مسلم لیگ کے مختلف گروہ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کو بطور مقامی شاخ پاکستان مسلم لیگ ہی استعمال کرتے رہے لیکن مشرف آمریت کے دوران مسلم لیگ ن کو توڑ کر مسلم لیگ ق کو قائم کئے جانے کے بعد مسلم کانفرنس نے بھی مسلم لیگ ق کی شاخ کے طور پر خدمات سرانجام دیں، جس کے نتیجے میں مسلم لیگ ن کو بھی اس خطے میں اپنی باضابطہ شاخ قائم کرنے پر مجبور ہونا پڑا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم کانفرنس کو توڑ کر مسلم لیگ ن کی بنیادیں رکھی گئیں۔

2010ء کی دہائی کے اوائل میں ہی پاکستان تحریک انصاف کی بھی یہاں بنیادیں رکھی گئیں، تاہم حقیقی معنوں میں تحریک انصاف نے پیپلزپارٹی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد پیپلز پارٹی کے ایک مضبوط گروپ کو استعمال کرتے ہوئے تحریک انصاف کو ایک مضبوط سیاسی جماعت کے طور پر قائم کیا۔ موجودہ انتخابات کی تیاریوں کے سلسلہ میں مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ ن سے مزید توڑ پھوڑ کرتے ہوئے تحریک انصاف اس قابل ہو چکی ہے کہ وہ انتخابات میں کامیاب ہو کر حکومت سازی کر سکے۔

عمومی طور پر پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں قبائل، علاقوں اور سرمائے کی طاقت کے اصولوں کی ہی بنیاد پر الیکٹیبلز کی ایک مخصوص پرت کے ذریعے ہی انتخابی سیاست کو استوار کیا جاتا ہے۔ یہ الیکٹیبلز پاکستان کے وفاق میں حزب اقتدار کی جماعت میں اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منشا کے مطابق چلے جاتے ہیں اور حکومت سازی کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ مسلم لیگ ن کے قیام کے وقت تک انتخابی سیاست ریاستی اور غیر ریاستی جماعتوں کے بیانئے پر استوار کی جاتی تھی لیکن یہ تحریک انصاف کے قیام کے بعد اب پاکستان سے آپریٹ ہونے والی تینوں بڑی جماعتوں کے مابین انتخابی رسہ کشی عروج پر رہتی ہے۔ پاکستان سے چلنے والی تینوں بڑی جماعتوں کے سیاست پر غلبے کی وجہ سے پاکستان کی سیاست ہی پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھی زیر بحث آتی ہے اور صحت، تعلیم، روزگار اور انفراسٹرکچر جیسے مقامی مسائل کہیں پس پشت چلے جاتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کی بالادست سیاست میں عمومی طور پر محنت کش طبقے کے مسائل کا ذکر خال خال ہی نظر آتا ہے لیکن پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں سروسز سیکٹر کے علاوہ روزگار کا کوئی بڑا ذریعہ موجود نہ ہونے، قبیلائی اور علاقائی تقسیم اور سرمائے کی بنیاد وں کے انتخابی سیاست پر غلبے کی وجہ سے یہ سیاست محنت کش طبقے کی زندگیوں سے لا تعلق نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محنت کش طبقہ بھی انتخابی سیاست اور حکمران اشرافیہ سے بدظن اور لا تعلق نظر آتا ہے۔ اقتدار کے حصول کیلئے کئے جانے والے دعوؤں اور اعلانات پر عملدرآمد نہ ہونے اور بنیادی انفراسٹرکچر اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی جیسے مسائل بھی حل کرنے میں ناکامی کے باعث ان انتخابات سے توقعات وابستہ کرنے کی کوئی وجہ بھی باقی نہیں رہی ہے۔

یوں بظاہر تو اس خطے میں ایک لمبے عرصہ تک چھینے گئے جمہوری حقوق حاصل ہوئے 50 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن پاکستان کی حکمران جماعتوں کا غلبہ اور بذریعہ اسٹیلبشمنٹ کنٹرول نو آبادیاتی تسلط کا ہی نئی شکل میں اظہار ہے۔ عمومی حالات میں سیاست پر غلبہ ہمیشہ حکمران طبقے کا ہی ہوتا ہے اور بحران کے عہد میں محنت کش طبقے پر چھائی گہری مایوسیوں اور ناامیدی کی وجہ سے درمیانے طبقے کی بے چینی اس سیاست میں فسطائی کرداروں کو بھی حاوی کرتی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مروجہ سیاست حقیقی مسائل سے کوسوں دور الزامات، گالم گلوچ اور ایک دوسرے کی ذاتوں پر کیچڑ اچھالنے سے مزئین ہے۔ بیروزگاری اور دیگر مسائل میں الجھے ہوئے نوجوانوں اور محنت کشوں کی ایک انگڑائی اس خطے پر حکمران سیاست کے غلبے اور تسلط کو ہوا میں تحلیل کرنے کا موجب بن سکتی ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔