طارق علی
مندرجہ ذیل اقتباس طارق علی کی کتاب ’دی ڈوئیل‘ (2008ء) سے لیا گیا ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ فاروق سلہریا نے ’پرزے ہوئے پیماں کتنے‘ کے عنوان سے کیا۔
صوبہ سرحد (خیبر پختونخواہ) کو درپیش بعض مسائل کا تعلق پڑوسی ملک افغانستان سے ہے۔ اے این پی کے ذہین ترین رہنما افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ اس خطے کی تاریخ میں بد ترین عہد ضیا آمریت کے ساتھ شرع ہوا جب ملک میں ہیروئن، مغربی و موساد ایجنٹوں، اسلحے اور دولت کی بھرمار اور یلغار ہوئی تاکہ افغانستان میں موجود سویت فوجوں کو شکست دی جا سکے۔ یہ درست ہے مگر اے این پی کے بعض مرکزی رہنماؤں نے بشمول اجمل خٹک کھل کر سویت مداخلت کی حمایت کی اور اس دوران افغانستان میں رہائش اختیار کر لی۔ آہ! پاکستان میں بایاں بازو قرار دئے جانے والے حلقوں کی اکثریت اس مداخلت کی حامی تھی۔ 2001ء میں امریکی اور ناٹوقبضے کی حمایت کرنے والے بعض معروف پاکستانی تجزیہ نگاروں نے 1979ء میں بھی اسی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا تھا جب سویت دستوں نے آمو دریا پار کرتے ہوئے جنوب کی جانب پیش قدمی شروع کی تھی۔
ناٹو کی ناکامی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ طالبان بھی لوٹ آئے ہیں اور ہیروئن کی تجارت بھی، یوں شمال مغربی پاکستان غیر مستحکم ہو گیا ہے۔ امریکی ڈرون طیاروں کی بلا امتیاز بمباری کا نتیجہ بے شمار معصوم جانوں کے ضیاع کی صورت میں نکلا ہے…ناٹو کے ہاتھوں قائم ہونے والی کرزئی حکومت کا طرہ امتیاز بد عنوانی اور اقربا پروری ہے جو سرطان کی طرح پھیل چکی ہے اور عام افغان جو اچھے وقت کی امید میں ملا عمر کی رخصتی پر خوش تھا، لا تعلق ہو چکا ہے۔ عام افغان نے اچھے وقت کی بجائے زمین پر ناجائز قبضے اور کرزئی کے حامیوں کی بڑی بڑی کوٹھیاں تعمیر ہوتے ہی دیکھی ہیں۔ مغرب سے آنے والی امداد سے مقامی تقسیم کاروں کی کوٹھیاں ہی تعمیر ہو سکی ہیں۔ امریکی قبضے کے دو سال بعد ناجائز قبضوں کے حوالے سے ایک زبر دست سکینڈل سامنے آیا تھا۔ وزرا نے اپنے اور اپنے حامیوں کے نام دارلحکومت کابل کے علاقوں میں اراضی الاٹ کرا لی جہاں امریکی قبضے کے بعد زمین کے نرخ آسمان کو چھو رہے تھے کہ قابضین اور ان کے حواری اسی انداز میں رہنا چاہتے تھے جس کے وہ عادی ہو چکے تھے۔ غریبوں کی آنکھوں کے سامنے کرزئی کے ساتھیوں نے بڑی بڑی کوٹھیاں بنائیں جن کی حفاظت پر ناٹو کے دستے معمور تھے۔
برطانیہ کی مسلط کردہ ڈیورنڈ لائن کو پاکستان اور افغانستان کے تمام قبائل نے تسلیم نہیں کیالہٰذا جب ناٹو مخالف جنگجو پاکستان کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں میں آ جاتے ہیں تو انہیں اسلام آباد کے حوالے نہیں کیا جاتا۔ ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے تا آنکہ وہ واپس چلے جائیں یا القاعدہ رہنماؤں کی طرح ان کی حفاظت کی جاتی ہے۔ جنوبی وزیرستان میں ہونے والی لڑائی عموماً اسی کارن ہے۔ واشنگٹن مزید لاشیں دیکھنے کا متمنی ہے جبکہ قبائلی رہنماؤں سے مشرف کے معاہدوں کو گویا طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ امریکیوں کو اس پر سخت غصہ اس لئے بھی آ رہا ہے کہ پاکستان کی فوجی کارروائیوں کا خرچہ براہ راست سینٹ کام برداشت کر رہا ہے اور ان کا خیال ہے کہ ان کے پیسے کی صحیح قیمت نہیں لگ رہی۔ گیارہ ستمبر کے بعد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں حصہ دار بننے پر پاکستان کو ملنے والے دس ارب ڈالر اس کے علاوہ ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان ملٹری انٹیلی جنس میں بعض عناصر کا خیال ہے کہ ’آپریشن انڈیورنگ فریڈم‘ ختم ہونے کے بعد وہ افغانستان پر دوبارہ قبضہ کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ بعض جنگجو رہنماؤں کے ساتھ تعلق ختم کرنے کو تیار نہیں۔ ان کا تو یہ بھی خیال ہے کہ آخر کار امریکہ خود ایسے کسی اقدام کی حمایت کرے گا۔ یہ بات تو اب سب کو معلوم ہے کہ کرزئی نے طالبان سے رابطے کئے ہیں۔ مجھے شک ہے کہ بات آگے بڑھ پائے گی کہ خطے میں بعض دیگر قوتیں بھی متحرک ہیں۔ ہرات اور مغربی افغانستان میں ایران کا کافی اثر پایا جاتا ہے۔ شمالی اتحاد کو روس سے اسلحہ ملتا ہے۔ بھارت اس خطے کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ واحد دیرپا حل افغان استحکام کیلئے علاقائی قوتوں کی طرف سے ضمانت اور ناٹو افواج کی واپسی کے بعد قومی حکومت کا قیام ہے۔ اگر امریکہ طالبان کے کسی دُھل کر آئے ہوئے دھڑے سے معاملہ کر بھی لے تو باقی قوتیں نہیں مانیں گی اور یوں ایک نیا تنازع شروع ہو جائے گا۔