قیصر عباس
جان سے پیارے بیٹے قربان علی!
یہاں پاکستان میں سب خیریت ہے اور خداوند کریم سے تمہاری اور امریکہ کی خیریت نیک مطلوب ہے۔ بیٹا ہمیں تم پرفخر ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں سے تم امریکہ میں ہو اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اب ماشااللہ کمپیوٹر انجینئرنگ کی کمپنی میں اچھے عہدے پر ملازم بھی ہوگئے ہو۔ ہم دعاگو ہیں کہ خدا تمہاری تنخواہ میں ہر ماہ اضافہ کرے اورکافروں کی سازشوں سے بچائے رکھے۔ آمین۔
ادھر تمہاری ملازمت کا سنتے ہی تمہارے چھوٹے بھائی شانی نے اپنی اچھی خاصی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ کہتا ہے جس کا بھائی امریکہ میں ہو اس کو یہاں نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ویسے ایک لحاظ سے کہتا تو ٹھیک ہی ہے۔تم ہی کہو جب ہمیں گھر بیٹھے ڈالر مل جائیں تو شدید گرمی میں سرکھپانے کی ضرورت بھی کیاہے؟ اس کی موٹر سائیکل ویسے بھی ناکارہ ہوچکی ہے۔ ٹیکسی اور رکشہ کے کرائے آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ اگرتم اگلے ماہ کچھ ڈالر اور بھجوا دو تو ہم بھی اس ڈھلتی عمر میں ایک چھوٹی موٹی کار خرید لیں۔
بیٹا میں جب سے ریٹائر ہوا ہوں یہی فکر ہے کہ گھر میں تمہاری ایک چاند سی دلہن لے آئیں جو ہم سب کی یہاں خدمت کرے اور تم توویسے بھی وہاں رات دن مصروف ہو اور سال میں ایک بار پاکستان کا چکر لگا ہی لیتے ہو۔ تمہارے لئے کچھ عمدہ رشتے تو آئے بھی تھے جو تمہاری شرائط پرپورے اترتے تھے یعنی لڑکی خوبصورت بھی ہو اور خوب سیرت بھی۔ کھانے پکانے میں ماہر بھی اور گھرداری میں طاق بھی۔ ایک دو تو تمہارا پسندیدہ بیسن کا حلوہ بھی بنالیتی ہیں۔
یہ سب تو ٹھیک تھا مگر ان کے والدین کاایک ہی سوال تھاکی لڑکا گرین کارڈ ہولڈر ہے بھی کہ نہیں۔ پھر ہم جب انہیں بتاتے کہ ابھی کچھ سال باقی ہیں گرین کارڈ ملنے میں تو کہتے کارڈ مل جائے تو بات کریں گے ابھی کیا جلدی ہے‘ بچے کی عمر ہی کیاہے۔ بیٹا فوراً سے پیشتر گرین کارڈ کے لئے بھی درخوست دے ڈالو تو بہتر ہے کہ اسی پہ تمہاری گھریلو خوشحالی اور مستقبل کا انحصار ہے۔
بیٹا تمہاری امی تو اب تمہاری شادی کے لئے بہت فکرمندہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے شام کی چائے او ر بسکٹ بھی بند کردئیے ہیں۔ اپنے نہیں میرے۔ اگر یہی حال رہا تو خدانخواستہ مجھے بھی متروک قرار نہ دے دیں۔ کبھی کبھی تو گھبراکر کہتی ہیں کہ اپنی بھانجی نیک پروین سے ہی تمہارا غائبانہ نکاح کرا دیں گی مگر میرے سمجھانے بجھانے پر باز رہتی ہیں۔
اگرایسی ہی جلدی ہے تو تمہاری چچازاد مسکان بی بی کیا بری ہے؟ بس ذرا زیادہ پڑھ لکھ گئی ہے اور سکول میں پڑھاتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تم جیسا صابر لڑکا اس کے ساتھ بھی گزارہ کرلے گا۔میرا خیال تو یہی ہے کہ یہ رشتہ تمہارے لئے بہت مناسب ہے۔ بس اگلے خط میں تم اسی خواہش کا اظہار بغیر کسی جھجھک کے کردینا۔ باقی یہاں میں سب سنبھال لوں گا۔
یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ تم دسمبر میں پاکستان کا چکرلگارہے ہو۔ پرسوں تمہارے چچاجان اور چچی جان دونوں آئے تھے۔ اور تمہارا چھوٹا چچا زاد بھائی موٹو بھی ساتھ تھا جو اب ماشااللہ نویں جماعت میں پہنچ گیاہے۔ اس کی فرمائش ہے کہ اب آنا تو اس کے لئے ایک لیپ ٹاپ کمپیوٹر ضرو ر لانا۔ بیٹا اس کی فرمائش ضرورپوری کرنا بہت حساس بچہ ہے۔
تمہاری چھوٹی بہن منّی تمہیں رات دن یاد کرتی ہے اور رُو رُو کر کہتی ہے کہ بھائی جان کب آرہے ہیں امریکہ سے مجھے ایک عدد ڈیجیٹل کیمرہ، ساؤنڈسسٹم ا ورٹی وی چاہیے۔ امید ہے تم اپنی اکلوتی بہن کی فرمائش ضرور پوری کروگے۔
بیٹا موسم گرما آگیا ہے۔ یہاں ہم تندور میں جل رہے ہیں۔ وہاں تو موسم خوشگوار ہی ہو گا؟ باہر نکلو توذرا ہوشیار رہنا! ہم نے سنا ہے کہ وہاں کوہ قاف کی پر یاں اپنے ناپاک جسم کی نمائش کرنے سڑکوں پر نکل پڑتی ہیں۔ خدا تمہیں گوریوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
خود بھی خوش رہو اور ہمیں بھی خوش رکھو۔
تمہارا والد
سبحان علی
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔