فاروق طارق
روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون پاکستان کا نامور انگریزی اخبار ہے جس نے 29 اپریل 2019ءکو دنیا بھر میں عسکری اخراجات بارے ایک ہوشربا مضمون شائع کیا ہے۔ جس میں ’سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ‘ (SIPRI) کی جاری کردہ ایک نئی رپورٹ کے حوالے سے اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں۔
مذکورہ بالا رپورٹ کے مطابق دنیا میں کل داخلی پیداوار (جی ڈی پی) کے تناسب سے سب سے زیادہ فوجی اخراجات کرنے والے دس ممالک میں سے چھ مڈل ایسٹ میں ہیں۔ ان میں سرفہرست سعودی عرب ہے جو اپنے جی ڈی پی کا 8.8 فیصد اسلحے کی خریداری پر خرچ کر رہا ہے۔ پھر عمان (8.2 فیصد)، کویت (5.0 فیصد)، اردن (4.7 فیصد)، الجزائر (5.3 فیصد)، آرمینیا (4.8 فیصد) اور اسرائیل (4.3 فیصد) کا نمبر آتا ہے۔
بھارت 2018ءمیں دنیا میں سب سے زیادہ عسکری اخراجات کرنے والے پہلے پانچ ممالک میں شامل تھا۔ دوسرے چار ممالک امریکہ، سعودی عرب، فرانس اور چین ہیں۔ دنیا کے کُل عسکری اخراجات کا 60 فیصد صرف ان پانچ ممالک سے وابستہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق بھارت میں پچھلے پانچ سال سے تسلسل سے فوجی اخراجات بڑھ رہے ہیں جو اس وقت 66.5 ارب ڈالر ہیں۔ ان میں 2009ءسے لے کے اب تک 29 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
افواج اور اسلحہ سازی پر امریکہ کے سالانہ اخراجات 649 ارب ڈالر ہیں جو اس سے بعد کے آٹھ ممالک کے مجموعی عسکری اخراجات سے بھی زیادہ بنتے ہیں۔
سات سالوں کے بعد پہلی دفعہ ٹرمپ کے دور میں ان اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔ 2018ءکے دوران ان میں 4.6 فیصد کا اضافہ ہوا۔ 2018ءمیں دنیا بھر میں ہونے والے کل عسکری اخراجات کا 36 فیصد صرف امریکہ کر رہا تھا۔
امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر چین آتا ہے جس نے 2018ءمیں ڈھائی سو ارب ڈالر اپنی ملٹری پر خرچ کیے جو دنیا کے مجموعی عسکری اخراجات کا 14 فیصد بنتا ہے۔ چین اس وقت ایشیا میں سب سے زیادہ فوجی اخراجات کر رہا ہے جو پورے ریجن میں ہونے تمام اخراجات کا 49 فیصد ہے۔ یہ شرح 2009ءمیں 31 فیصد تھی۔
ملٹری پر ایشیا اور بحرالکاہل کے ممالک کے کُل اخراجات 507 ارب ڈالر ہیں جو اس مد میں کُل عالمی اخراجات کا 28 فیصد بنتے ہیں۔
پاکستان کے بارے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک کے عسکری اخراجات میں 2009ءسے 2018ءکے درمیان 73 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے سال کے دوران یہ اخراجات 11 فیصد بڑھے ہیں۔ رپورٹ کی مطابق 2018ءمیں پاکستان کے فوجی اخراجات 11.4 ارب ڈالر تھے اور اس لحاظ سے پاکستان کا دنیا میں اس وقت 20 واں نمبر ہے۔
پاکستان کُل داخلی پیداوار کا تقریباً 4 فیصد ملٹری پر خرچ کر رہا ہے جو 2004ءکے بعد بلند ترین شرح ہے۔ پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جن پر عسکری اخراجات کا بوجھ سب سے زیادہ ہے۔
مجموعی طور پر دنیا بھر میں اس وقت 1.8 ٹریلین ڈالر سالانہ افواج اور اسلحہ سازی وغیرہ پر خرچ کیے جار ہے ہیں۔ ان میں 2018ءکے دوران 2.6 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
یہ اتنی رقم ہے کہ اسے تباہی اور بربادی کی بجائے انسانوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے تو چند سالوں میں دنیا بھر سے غربت، لاعلاجی، ناخواندگی، بیروزگاری اور غذائی قلت جیسے مسائل کا مکمل خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ دنیا کے ہر خطے اور ہر ملک میں انتہائی جدید سماجی اور مادی انفراسٹرکچر تعمیر کیا جا سکتا ہے۔
صرف پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے جبکہ تعلیم پر سرکاری اخراجات جی ڈی پی کے صرف 2.5 فیصد کے برابر ہیں۔ جبکہ صحت پر حکومتیں صرف 0.8 فیصد خرچ کرتی ہیں۔ ہمارے جیسے ممالک میں ان میں سے بھی بہت سا پیسہ بدعنوانی اور بدانتظامی کی نذر ہو جاتا ہے۔پولیو دنیا بھر میں ختم ہے لیکن پاکستان میں اسے ابھی تک ختم نہیں کیا جا سکا۔ اسی طرح قرون وسطیٰ کے دور کی بیماریاں کو بھی یہاں جڑ سے نہیں اکھاڑا جا سکا ہے۔
ہندوستان سمیت دنیا کے بیشتر دوسرے ممالک کی کم و بیش یہی کیفیت ہے۔ حتیٰ کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی عام لوگوں سے بنیادی سہولیات اور حقوق چھین کے انسانی تباہی کے ہتھیاروں پر پیسہ خرچ کیا جاتا ہے۔
یہ سارا پیسہ سامراجی اسلحہ ساز کمپنیوں، جنہیں ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس بھی کہا جاتا ہے، کی تجوریوں میں جاتا ہے۔ جو اپنے اسلحے بیچنے کے لئے جنگیں کرواتی ہیں۔ جن میں لاکھوں بے گناہ انسان موت اور بربادیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ جنگ نہ بھی ہو تو مسلسل تناﺅ کی کیفیت برقرار رکھی جاتی ہے تاکہ اسلحے کی دوڑ لگی رہے۔ بڑی منصوبہ بندی سے عسکری اخراجات کی بڑھوتی کی نظریاتی بنیادوں کو تعمیر کیا جاتا ہے۔ اسی بہتی گنگا میں دنیا بھر کی عسکری اشرافیہ بھی ہاتھ دھوتی ہے۔ کمیشنوں اور کک بیکس کی مد میں لاتعداد پیسہ بٹورا جاتا ہے۔
دنیا میں غربت ہے کہ بڑھتی ہی جاتی ہے۔ محنت کشوں کو غلامانہ اجرتیں دی جاتی ہیں۔ انہیں انسان بھی نہیں سمجھا جاتا۔ طبقاتی استحصال عروج پر ہے۔ اس سارے فساد کی جڑ سرمایہ داری ہے۔ یہ اسی نظام کی ترجیحات ہیں کہ انسانوں کو آباد کرنے کی بجائے برباد کرنے کے منصوبوں پر ہزاروں ارب ڈالر خرچ کیے جائیں۔ کیونکہ منافع اسی میں ہے۔ان ترجیحات کو بدلنے کے لئے نظام بدلنا ہو گا۔