ڈاکٹر مظہر عباس
میل گبسن کی فلم ’بریو ہارٹ‘ نے 1995ء میں 68 ویں اکیڈمی ایوارڈز میں بہترین پکچر اور بہترین ہدایت کاری سمیت پانچ اکیڈمی ایوارڈ جیتے تھے۔ فلم کی کہانی سکاٹ لینڈ کی برطانوی قابضوں کے خلاف جنگ آزادی کے گرد گھومتی ہے جبکہ فلم کا پلاٹ اسکاٹ لینڈ کے سورمے ولیم ویلس کی زندگی پر مبنی ہے جو اپنے ملک کی آزادی کی جدوجہد کی قیادت کرتا ہے۔
تاریخ میں ولیم ویلس کے بارے میں معلومات نہیں ملتی ماسوائے ایک پرانی طویل تعریفی نظم کے، جو یہ بتاتی ہے کہ ویلس نے اسکاٹ لینڈ کے قبیلوں کو متحرک، منظم اور متحد کیا۔ اس نے برطانوی قابضوں کے خلاف کچھ مشہور فتوحات حاصل کیں۔ تاہم، آخر میں اسے گرفتار کر لیا گیا، اس پر تشدد کیا گیا اور پھر اس کو غدار کے طور پر پھانسی دے دی گئی۔ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ گبسن نے ایک حقیقی کہانی کی بجائے ایک افسانہ فلمایا ہے۔
’بریو ہارٹ‘ کا پلاٹ رائے احمد خان کھرل آف جھامرہ کی زندگی سے کافی مشابہت رکھتا ہے۔ جھامرہ نو آبادیاتی پنجاب کے ضلع گوگیرہ کا حصہ تھا (اب پاکستانی پنجاب کے ضلع فیصل آباد کا حصہ ہے)۔
’بریو ہارٹ‘ کے مرکزی کردار، ولیم ویلس اور جھامرہ کے رائے احمد خان کھرل کی زندگی کے مابین متعدد مماثلتیں ہیں: سب سے پہلا یہ کہ، دونوں اپنے ہم وطنوں کو اس یقین پر اکٹھا کرتے ہیں کہ جنگ جیتنا ضروری ہے۔ دوسرا یہ کہ، دونوں ایک ہی دشمن، برطانوی قابضوں، سے لڑتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ، دونوں اپنے لوگوں کی حالت سے متاثر ہو کر آزادی کی جدوجہد شروع کرتے ہیں۔ چوتھا یہ کہ، دونوں ایک طاقتور دشمن کے خلاف چند مشہور فتوحات رقم کرتے ہیں۔ پانچواں یہ کہ، دونوں کو مقامی اشرافیہ نے دھوکہ دیا۔ چھٹا یہ کہ، دونوں رحم کی اپیل کرنے پر موت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور ساتواں یہ کہ، دونوں کو ان کے ہم وطنوں نے محب وطن اور آزادی پسند کہا ہے۔
جہاں ’بریو ہارٹ‘ کے مرکزی کردار اور جھامرہ کے رائے احمد خان کھرل کی زندگی میں مماثلتیں ہیں وہیں ان میں کئی تضادات بھی پائے جاتے ہیں: پہلا یہ کہ، ویلس کافی جوان تھا جبکہ کھرل کی عمر ستر سال سے زیادہ تھی جب انہوں نے برطانوی قابضوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی۔ دوسرا یہ کہ، ویلس کو پکڑلیا گیا، اس پر تشدد کیا گیا، اور اس کو پھانسی دے دی گئی، جبکہ کھرل کو انگریز نہ تو پکڑ سکے اور نہ ہی ان پر تشدد کر سکے بلکہ انہیں نماز پڑھتے ہوئے شہید کیا گیا۔ تیسرا یہ کہ، ویلس کی بغاوت کی ایک بنیادی وجہ اس کی بچپن کی محبت، مرن، کا بے رحمی سے قتل بھی تھا جبکہ کھرل نے محض اپنی مٹی کے لوگوں کے درد کی وجہ سے بغاوت کا راستہ اپنایا تھا۔ چوتھا یہ کہ، کھرل کے قتل کا بدلہ ان کے حامیوں نے لے لیا تھا جبکہ ویلس کے قتل کا بدلہ نہیں لیا جا سکا تھا۔ اور پانچواں یہ کہ، ویلس کو ایک افسانوی کردار کہا جاتا ہے جبکہ کھرل ایک حقیقی اور تاریخی شخصیت ہے۔
جنگ آزادی جو مئی 1857ء میں پہلی بار میرٹھ میں شروع ہوئی تھی کچھ ہی وقت میں ہندوستان کے دیگر حصوں میں بھی پھیل گئی۔ برطانوی قابضوں، جو بغاوت کو روکنے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے، کو آزادی پسندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجیوں کی اشد ضرورت تھی۔ اس سلسلے میں گوگیرہ کے ڈپٹی کمشنر، کیپٹن ایلفنسٹون، نے لارڈ برکلے، گوگیرہ کے ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر، کی سربراہی میں ایک ایلچی بھیجا تاکہ کھرلوں اور دیگر مقامی سرداروں کی مدد حاصل کی جا سکے۔ ایلچی نے ان مقامی سرداروں سے مدد کے طور پر مردوں اور گھوڑوں کا مطالبہ کیا تاکہ برطانوی راج کا دفاع کیا جا سکے۔ اس درخواست کا جواب دیتے ہوئے رائے احمد خان کھرل نے کہا: ”ہم کبھی بھی اپنی زمین یا گھوڑوں کا اشتراک کسی کے ساتھ نہیں کرتے۔“
اس جواب نے ایک طرف انگریزوں کو مشتعل کیا جبکہ دوسری طرف انہیں ایک متوقع بغاوت سے خبردار بھی کیا۔ اسی لیے تمام مقامی سرداروں، بشمول رائے احمد خان کھرل، کو گوگیرہ جیل میں قید کر دیا گیا۔ تاہم، انہیں بعد میں اس ضمانت پر رہا کر دیا گیا کہ وہ انگریزوں کے خلاف لڑائی میں حصہ نہیں لیں گے۔
ضمانتیں جمع کروانے کے باوجود، رائے احمد خان کھرل اور دیگر نے فیصلہ کیا کہ وہ آزادی پسندوں کا ساتھ دیں گے۔ اس خبر پر مشتعل ہو کر انگریزوں نے کئی معصوم مردوں، عورتوں اور بچوں کو گوگیرہ جیل میں قید کر دیا۔ رد عمل کے طور پر کھرل اور اس کے ساتھیوں نے جیل پر حملہ کیا اور 26 جولائی 1857ء کو قیدیوں کو چھڑوا لیا۔ یہ معاملہ یہاں نہیں رکا۔ بلکہ کھرل، وٹو اور کچھ دوسرے قبائل نے انگریزوں کو محصول دینے سے بھی انکار کر دیا۔ ان کے اس عمل نے برطانوی انگریزوں کے اختیار کو چیلنج کیا۔
انگریزوں نے برکلے کو بغاوت کو روکنے اور باغیوں کو سبق سکھانے کا کام سونپا۔ برکلے نے منٹگمری (موجودہ ساہیوال) کے مارٹن کو لکھا، جواباً اس نے ملتان کے ہملٹن کو آگاہ کیا۔ گوگیرہ، ساہیوال اور ملتان کے برطانوی منتظمین نے اپنی کمک جمع کی اور بغاوت کو دبانے کے لیے جھامرہ اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ خبر ملتے ہی رائے احمد خان کھرل نے مقامی سرداروں، بنیادی طور پر قبائلی رہنماؤں (قریشیوں، وٹووں، مخدوموں، خاکوانیوں، ڈاہوں اور گردیزیوں)، کا ایک اجلاس بلایا تاکہ استعماری قوتوں پر مشترکہ حملہ کیا جا سکے۔ تاہم، ما سوائے چند ایک کے باقیوں نے رائے احمد خان کھرل کا ساتھ دینے کی بجائے احتیاط برتنے کو ترجیح دی۔ بعد ازاں ان میں سے بہت سے لوگوں نے بالآخر انگریزوں کا ساتھ دیا، جس کے بدلے میں ان کو زمینوں اور القابات سے نوازا گیا۔ رائے احمد خان کھرل کے حریف، کمالیہ کے سرفراز خان کھرل، نے انگریزوں کو بغاوت کی منصوبہ بندی سے آگاہ کیا تھا۔ اس کے بدلے میں اسے سیاسی اور معاشی دونوں طرح سے نوازا گیا۔
دونوں فریق، یعنی رائے احمد خان کھرل اور برطانوی انگریز، گشکوری کے جنگل میں (گوگیرہ سے تقریباً چھ میل کے فاصلے پر) آمنے سامنے آئے۔ کھرل اور ان کے ساتھیوں نے بہادری سے مقابلہ کیا اور ان میں سے بہت سے لوگوں نے شہادت قبول کی۔ کھرل کو 21 ستمبر 1857ء کو گلاب سنگھ بیدی نے برکلے کے حکم پر اس وقت گولی مارکر شہید کیا جب وہ نماز پڑھ رہے تھے۔
کھرل کوشہید کرنے اور بغاوت کو کچلنے کے بعد برکلے نے گوگیرہ واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے جب وہ راوی عبور کر رہا تھا تو کھرل کے ایک کامریڈ مراد فتیانہ نے اسے خنجر مار کر قتل کر دیا۔
اگرچہ پنجاب کے لوگ رائے احمد خان کھرل کو اپنا ہیرو تسلیم کرتے ہیں لیکن بعد از نو آبادیاتی پنجاب کی یکے بعد دیگرے حکومتوں نے ان سے منسوب عمارتوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ مثال کے طور پر: گوگیرہ کی وہ جیل جہاں انہیں اور ان کے ساتھیوں کو قید کیا گیا تھا؛ ان کا مقبرہ جو کہ ان کے آبائی گاؤں جھامرہ کے قریب ہے؛ اور برکلے کی قبر جو کہ گوگیرہ، شیخو شریف روڈ پر عیسائیوں کے ایک چھوٹے سے قبرستان میں ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کو ان مقامات کو نہ صرف محفوظ بلکہ بحال بھی کرنا چاہیے اور ان کی دیکھ بھال بھی کرنی چاہیے۔