گریگ اوکسلے
ترجمہ: حمید خان
21 فروری 2020ء کو میرے دوست اور کامریڈ، لال خان کئی مہینوں تک ایک خطرناک بیماری سے لڑتے ہوئے چل بسے۔ لال خان، جس کو میں جوانی کے دنوں میں تنویر گوندل کے نام سے جانتا تھا، ایک شاندار مارکسی نظریہ دان تھا۔ میں پہلی دفعہ اس سے 1980ء میں اس وقت ملا تھاجب میں ہالینڈ میں چند ہم خیال انقلابیوں سے ملنے گیا جہاں اس نے سیاسی جلاوطنی اختیار کی ہوئی تھی۔ اس نے ”جدوجہد“ نامی رسالے کے گرد انقلابیوں کے ایک گروہ کو اکٹھا کیا۔ اَسی کی دہائی میں جب تنویر پاکستان واپس گیا تو اس نے پاکستان میں مارکسی قوتوں کی تعمیر کا دشوار کام شروع کیا۔ تنویر اور ٹیڈ گرانٹ کے علاوہ میں کسی ایسی عظیم ہستی کو نہیں جانتا جس نے آج کے عہد میں محنت کش طبقے کی آزادی کے لیے نظریاتی اور عملی بنیادوں پر اتنا کام کیا ہو۔
تنویر بند کمروں کا نظریہ دان نہیں تھا۔ اس نے اپنی جوانی میں ضیاالحق کی آمریت کے دوران قید و بند کی صعوبتیں کاٹیں۔ اس کے سیاسی نظریات اور تجزیوں کی گہرائی طبقاتی جدوجہد میں سرگرم شمولیت کی مرہون منت تھی۔ وہ ایک متاثر کن اور مربوط مقرر تھا۔ تما م تر مشکلات اور خطرناک حالات کے باوجود وہ اور اس کے ساتھی صرف انقلابی مشن اور نظریات پر یقین کی بنیاد پر ہی انقلابی جنگجوؤں پر مشتمل ایک ایسی شاندار تنظیم تعمیر کرنے میں کامیاب ہوئے جسے پورے ملک میں ہزاروں مزدوروں اور نوجوانوں کی حمایت حاصل ہے۔ 2012ء میں مجھے پاکستان جانے کا موقع ملا اور ان کی شاندار کامیابیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
تنویر کے لیے پاکستان کے معروضی حالات میں نظریاتی مصالحت کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اپنی تحریروں میں اس نے جرات مندانہ انداز میں مختلف مسائل پر اپنا مؤقف بیان کیا جیسے سامراجی تسلط، قومی سوال، قبائلیت اور سماج کے وہ تضادات جس میں شدید سماجی، معاشی اور ثقافتی پسماندگی کے حالات میں جدید سرمایہ داری کی تکنیک اور سماجی طبقات ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ تنویر ساری زندگی ایک سوشلسٹ بین الاقوامیت کی پالیسی کے لیے جدوجہد کرتا رہا اور محنت کش طبقے کو سرمایہ داری، غربت اور استحصال کی ہر شکل کے خلاف بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب اور زبان متحد کرنے کے لیے لڑتا رہا۔ یہ کام یقینا اس کی موت کے بعد بھی جاری رہے گا۔ اس کے نظریات اور مارکسی نظریات کے لیے اس کے کام کو یورپ اور دنیا بھر کے سرگرم سیاسی کارکنوں کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔
بطور انسان وہ ایک خوبصورت شخصیت کا مالک تھا۔ ہر کسی سے گرمجوشی سے ملتاتھا۔ حساس طبیعت اور فصاحت و بلاغت کا مالک تھا۔ اسے موسیقی، ادب اور شاعری سے گہرا شغف تھا۔ میرے لیے وہ ہمیشہ ایک ناقابل فراموش دوست اور کامریڈ رہے گا۔ میں اپنی دل کی گہرائیوں سے اس کی بیوی صدف، بیٹے شیر زمان، بیٹی سحر اور خاندان کے تمام تر افرادکو تعزیت پیش کرتا ہوں۔ اگرچہ تنویر کی موت تمام ساتھیوں کے لیے گہرے صدمے کا باعث بنی ہے لیکن جس جدوجہد کے لیے اس نے اپنی پوری زندگی وقف کی وہ جدوجہد جاری رہے گی۔