دنیا

21 ویں صدی کا بحران 2 وجہ سے مختلف ہے: عالمی صورتحال پر چوتھی انٹرنیشنل کا بیان

پہلی قسط

(مندرجہ ذیل دستاویز، چوتھی انٹرنیشنل کی قیادت کی جانب سے جاری کی گئی ہے۔ اگلے سال چوتھی انٹرنیشنل کی عالمی کانگرس بلجئیم میں منعقد کی جا رہی ہے۔ یہ ڈرافٹ دستاویز ہے جس پر کانگریس میں بحث کی جائے گی۔ ترجمہ عدیل اعجاز،فاروق سلہریا )

وبائی مرض کے بعد کے سالوں میں عالمی صورتحال کا تجزیہ اور خصوصیات بیان کرنے میں کچھ قابلِ ذکر کامیابیاں حاصل ہونے کے باوجود، ہم میں سے بہت کم لوگ اس کثیر الجہتی بحران کی تیز رفتاری کی پیش گوئی نہیں کر سکتے تھے جو گزشتہ 12 سے 18 مہینوں کے دوران سامنے آیا۔ 2024ء کے اواخرمیں، ہم آب و ہوا کے نظام میں در آئی معروضی خرابی کے نتائج کا سامنا کر رہے ہیں، جو کہ گرمی، خشک سالی، برف زاروں کے تیزی سے پگھلنے، شدید سیلاب اور حیاتیاتی انواع کے خاتمے کے حوالے سے ”فوسل تہذیب” کی پیداوار ہے۔یہ عالمی بحران، ماحولیات، نظام خوراک، صحت… بشمول وبائی امراض… غالب بین الاقوامی آرڈر اور طاقتوں کی جغرافیائی سیاست کے تمام شعبوں کو متاثر کر رہا ہے۔

اسی وقت، ہم ٹی وی اور سوشل میڈیا پر فلسطینی عوام کی غزہ اور مغربی کنارے میں نسل کشی دیکھ رہے ہیں۔ صیہونی ریاست کی جانب سے، اس بربریت نے اب پورے مشرقِ وسطیٰ کی سرحدوں کو پامال کر دینے اورانہیں (اپنی مرضی کے موافق) ازسرنو ترتیب دینے کی خاطر جارحیت کی مختلف النوع اشکال اختیار کر لی ہیں۔ امریکی حمایت کے بل بوتے پر، اسرائیل غزہ کے مغربی کنارے، لبنان(یہ ملک اب براہ راست زمینی حملوں کی زد میں ہے) یمنی باغیوں اور ہر اس شخص کے خلاف حملہ آور ہے جو سیکڑوں فلسطینی شہریوں، حماس اور حزب اللہ کے رہنماؤں کے قتل عام کی مخالفت کرتا ہے۔ اسرائیل کا یہی جنگی جنون ایران کی جانب سے ردِ عمل کا موجب بن رہا ہے جو ایک واضح بین الریاستی و علاقائی جنگ کی طرف ایک انتہائی خطرناک انداز میں بڑھ رہا ہے۔

کوئی بھی استعماری طاقت، جو اس وقت غالب ہے یا ابھررہی ہے، نہ تو عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے خلاف سنجیدہ اقدامات کرنے میں متحرک ہے اور نہ ہی نتن یاہو یا پیوٹن کے خون آشام توسیع پسندانہ عزائم کو ختم کرنے کے سلسلے میں متردد ہے۔ روسی سامراج کی طرف سے یوکرین پر کئے گئے حملوں کے نتیجے میں شروع ہونے والی جنگ اڑھائی سال سے جاری ہے۔ یہ جنگ اب تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکی۔ اس سے یوکرینیوں کے لئے، جو کہ حملوں کی زد میں ہیں، کوئی موافق حل نظر آ رہا ہے اور نہ ہی روسی حزبِ اختلاف، جو پوتن کی مطلق العنان حکومت کے تحت خاموش ہے، کیلئے سازگار ثابت ہو رہی ہے۔

گزرتے وقت کے ساتھ،چین اور امریکہ کے مابین معاشی و جیو پولیٹیکل مقابلہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ جغرافیائی و سیاسی بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے۔دنیا ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی مخاصمت دنیا کو عسکریت کی جانب دھکیل رہی ہے۔ یوں دنیا ایک مرتبہ ایٹمی خطرے اور ایٹمی خوف سے دو چار ہے۔ یوں تنازعات اور کشیدگیاں بڑھ رہے ہیں۔کرونا وبا نے معاشروح کر تتر بتر کر دیا۔۔۔یہ معاشرے پہلے ہی نیو لبرل پالیسیوں کا خمیازہ بھگت رہے تھے اور عدم استحکام کا شکار تھے۔اس کے نتیجے مین نیو لبرل جمہوریتوں کی مزید بے توقیری ہوئی۔یہ صورت حال فار رائٹ کو تقویت پہنچانے کا باعث بنی۔فار رائٹ دنیا بھر میں نیو لبرل یا سوشل لبرل حکومتوں سے لوگوں کی مایوسی سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔بدلتی ہوئی دنیا جس بے یقینی کو جنم دے رہی ہے،فار رائٹ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، ڈی ریگولیٹڈ سوشل میڈیا ٹیکنالوجی کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے بورژوازی، پیٹی بورژوازی اور عوامی پرتوں کے کچھ حصوں کو فاشسٹ،مزدور دشمن،بائیں بازو کے مخلاف،زینو فوبک،عورت دشمن،ہم جنس مخالف، ٹرنس فوبک نقطہ نظر کی طرف مائل کر رہے ہیں۔

یہ اس تاریک اور چیلنجنگ (مبارزت طلب) منظر نامے کا تقاضہ ہے، جس میں اس وقت بائیں بازو سے کوئی سماجی اور سیاسی متبادل حل نظر نہیں آ رہا۔ اس ضمن میں نوجوانوں اور مزدوروں کی توجہ حاصل کرنے کے قابل اینٹی کپیٹلسٹ (سرمایہ داری مخالف) مثالیں موجود نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں فورتھ انٹرنیشنل کے کارکنوں کو انقلابی فہم اور عمل کے ساتھ جواب دینا چاہیے۔ اگر نیو لبرل سرمایہ داری کے کثیر الجہتی بحران نے خطہ ارضی کو تباہی اور انسانیت کو معدومی کے قریب پہنچا دیا ہے، تو ہمارا عظیم فرض یہ ہے کہ ہم ہنگامی بنیادوں پر اس سلسلے کو روکنے میں مدد فراہم کریں۔ یہ مقالہ اس پیچیدہ بین الاقوامی صورتحال کی درست تفہیم کے حصول کے لئے ایک بنیاد کے طور پر پیش کیا گیاہے جس میں ہم رہ رہے ہیں اور کام کرتے ہیں۔

ایک کثیر الجہتی ارضی (پلینٹری) بحران

انسانیت کو درپیش بڑے مسائل مسلسل گلوبلائز ہوتے جا رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ بحران واضح طور پر انسانی معاشرے اور کرہ ارض دونوں کے لئے کثیر الجہتی بحران بن چکا ہے۔ مختلف شعبوں کے درمیان، بغیر کسی منشیائی درجہ بندی(Manichean hierarchies) کے، ایک جدلیاتی ربط موجود ہے۔ جیسا کہ (اول) ماحولیاتی بحران، جو کچھ عرصے سے شدید موسمی حالات کو جنم دیتا ہے اور انسانی بقا کے لئے مقرر کی گئی ڈیڈ لائنز مسلسل بدلنی پڑتی ہیں؛ (دوم) معیشت کے جمود کے طویل دورانیے اور اس جمود کے نتیجے میں جنم لینے والے سماجی انتشارکے نتائج؛ (سوم)بھڑان کا شکار جمہوریت اورنیو لبرل حکومتوں کی وجہ سے انتہائی دائیں بازو کو ملنے والے مواقع؛ (چہارم)بین الریاستی نظام میں امریکہ اور چین کے درمیان بالادستی کی کشمکش کا شدت اختیار کرنا؛ اور (پنجم) جنگوں کی تعداد اور شدت کا خطرناک طور پر بڑھنا۔

نیو لبرل عالمگیریت کے بحران نے سرمایہ داری کی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز کیاہے۔ یہ دور انیہ قبل ازیں ایسے تمام ادوار سے معیاراً مختلف ہے جو 1980 کی دہائی کے اواخر میں، نیو لبرل عالمگیریت کے قیام کے بعد سے ہم نے دیکھا ہے، بالخصوص طبقاتی جدوجہد اور ریاستوں کے درمیان کشمکش کے نقطہ نظر سے زیادہ ٹکراؤ والا یہ دور، جو 33 سال پہلے سوویت یونین اور مشرقی یورپ کی بیوروکریٹک (افسرشاہی) حکومتوں کے خاتمے کے بعد شروع ہوا تھا۔

موجودہ ‘کثیرالجہتی بحران’ کو کیا چیز منفرد کرتی ہے؟

موجودہ صورتحال اور بیسویں صدی کے آغاز میں،جب بقول ایریک ہابسبام (Eric Hobsbawm) "آفت کے دور (1914 – 1946)” نے جنم لیا اور دو خونی عالمی جنگیں ہوئیں،بحرانوں کے ارتکاز کے درمیان دو بڑے فرق ہیں۔ موجودہ کثیرالجہتی بحران کا سب سے فوری طور پر خطرناک پہلو، جو سو سال پہلے موجود نہیں تھا، ماحولیاتی بحران ہے۔ یہ بحران دو صدیوں پر مشتمل، شکاری طرز کے سرمایہ دارانہ اندوختے کا نتیجہ ہے۔

بڑھتا ہوا موسمیاتی اور ماحولیاتی بحران انسانیت اور کرہ ارض پر زندگی کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ زمین پر اوسط درجہ حرارت میں اضافے کی شرح پچھلی دہائی کے مقابلے میں دگنی ہو چکی ہے۔ حیاتیاتی تنوع ختم ہو رہا ہے۔ آلودگی، زہریلا مواد اور وبائی امراض ہیں۔ یہ تمام عوامل اس چیز کی علامت ہیں کہ فیصلہ کن اقدامات کے لیے وقت مختصر ہے۔

عالمگیریت یافتہ (گلوبلائزڈ) کارپوریٹ معیشت، جو فوسل فیول کے جلانے،گوشت اور انتہائی پروسیسڈ شدہ کھانوں کی بڑھتی ہوئی کھپت پر مبنی ہے، موسمیاتی بحران کو تیزی سے گہرا کررہی ہے۔ ایک ایسا موسمیاتی بحران جو خطہ ارض پر انسانوں کے مستقبل کو محدود بلکہ معدوم کر دے گا۔ قطبین اور گلیشیئرز کے پگھلنے سے سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے اور پانی کا بحران الگ سے گہرا ہو رہا ہے۔ ایگروبزنس، کان کنی اور ہائیڈرو کاربن کی تلاش (گو انہیں مزاحمت کا سامنا ہے) استوائی جنگلات کی طرف بڑھ رہے ہیں، جو سیارے کے موسمیاتی نظام اور حیاتیاتی تنوع کو برقرار رکھنے کے لیے اشد ضروری ہیں۔ موسمیاتی بحران کے اثرات مزید شدید انداز میں ظاہر ہوتے رہیں گے، انفراسٹرکچر، زرعی نظام اور روزگار کو تباہ کریں گے اور بڑے پیمانے پر انسانی نقل مکانی کا سبب بنیں گے۔ یہ سب سماجی تنازعات میں اضافہ کے بغیر کیونکر ممکن ہو گا۔

انقلابی متبادلوں کی عدم موجودگی،وہ دوسرا اہم عنصر ہے جس کا اجاگر کیا جانا ضروری ہے۔ درحقیقت، تیزی سے در آتی تبدیلیوں کے درمیان، پچھلے دور کا ایک عنصر موجود ہے اور اس عنصرنے (نام نہاد نیو لبرل پیداواری ڈھانچے مین ری سٹرکچرنگ کی وجہ سے) استحصال زدہ طبقے اور محکوم شعبوں کو از سرِ نوترتیب پانے کی وجہ سے زیادہ شدت اختیار کر لی ہے۔یہ عنصر ہے: عوام کی نظروں میں سرمایہ داری کا کوئی قابل اعتماد متبادل کا نہ ہونا، معاشی اور سماجی انقلابات کی قیادت کرنے والی کوئی اینٹی کپیٹلسٹ (سرمایہ داری مخالف) قوت یا قوتوں کا گروہ نہیں ہے۔ یہ نظام کے لیے انتہائی نازک لمحہ ہے۔کیا کہیں کہ یہ سماجی تحریکوں اور بائیں بازو کی بڑی سیاسی اور نظریاتی تقسیم کا بھی لمحہ ہے۔ یہ صورت حال استحصال زدہ اور مظلوم طبقے کے شعور کی پسماندگی سے منسلک ہے۔ یہ پسماندہ شعور جغرافیائی، تکنیکی اور ساختی تبدیلیوں کے از سر نوتال میل اور حد درجے کی نیو لبرل انفرادیت پسندی کا نتیجہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ’بائیں بازو‘ کی حکومتیں جیسا کہ سیریزا اور پوڈیموس کے منفی نتائج بھی ہیں، جن کی حکمت عملی اور تدابیر نے سوشلسٹ بائیں بازو کی شدید تقسیم کو جنم دیا۔ یہ ایک ایسی صورتحال کا سبب بنی جس میں جدوجہد زیادہ مشکل ہو گئی جبکہ شعور اجاگر کرنے اور سیاسی تنظیم پر اس کے اثرات کمزور ہوتے گئے۔

معاشی اور سماجی حالت

ہم ابھی تک 2008 کے اس بڑے مالیاتی بحران کے اثرات کے سائے تلے زندگی گزار رہے ہیں، جس نے (دنیا میں) ایک نئی مگر بہت بڑی کساد بازاری کا آغاز کیا۔ ازاں بعد، یہ ایک طویل عرصے تک رہنے والی سرد بازاری کا باعث بنا، بالکل اسی طرح جیسے 1873تا90 18 کے سالوں بالخصوص 1929-1933 کے دوران ہوا  [جب منڈیوں میں اشیاء کی طلب نہ رہی:مترجم]۔ ہم نیو لبرل گلوبلائزیشن کے بحران کا سامنا بھی کر رہے ہیں۔ اس بحران کی پہلی وجہ یہ ہے کہ، یہ سرمایہ دارانہ نظام اب اس قابل نہیں رہا جیسا کہ وہ 1980 اور 1990 کی دہائیوں کے اواخر میں سرمائے کی نمو، منافع اورارتکاز سر مایہ کی ضمانت دے سکتا تھا۔ دوم، جیو پولیٹیکل پولرائزیشن (قطبیت)، جو کہ جنگوں اور قوم پرستی کے عروج سے بگڑی ہوئی ہے، نے بین الاقوامیویلیو چینز(value chains) کو ہلا کر رکھ دیا ہے (مثلاً یورپ تک روسی توانائی کی فراہمی، چین سے عالمی منڈی میں پہنچنے والے چِپ(chip) کی پیداوار جس کی وجہ امریکی غصہ ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ چین ٹیلی کمیونیکیشن اور مصنوعی ذہانت میں قیادت حاصل نہ کر سکے)۔ایک رجحان یہ ہے کہ ان لرزہ بر اندام ویلیو چینز کو از سر نو ترتیب دیا جائے۔ تاہم، ان مشکلات کے باوجود نیو لبرل سامراجی حکومتیں اور ان کے حواری اجرتوں یا سماجی بجٹوں میں کٹوتی سے باز نہیں آ رہیں نہ ہی زراعت کو جنس ِبازار (commodity)بنانے کا سلسلہ رک رہا ہے۔

2008 کے بعد معمولی معاشی ترقی کے باوجود، نیو لبرل معیشت اپنے ہی بحران سے بچنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس ضمن میں سرمائے کے مسلسل ارتکاز، فنانشائلائزیشن، عوامی اور نجی قرضوں کا فروغ، ڈیجیٹلائزیشن(جو بڑی بین الاقوامی کمپنیوں اور خاص طور پر بڑی ٹیک کمپنیوں کو زیادہ سے زیادہ طاقت فراہم کر رہی ہے) ہو رہی ہے۔معیشیت کا جمود یا سست روی سے بڑھنا، مہنگائی کے ساتھ (جسے روس کی یوکرین پر جارحیت نے بڑھا دیا ہے) اور وہی پرانی نیو لبرل پالیسیاں (آزاد حکمت عملیاں)سماجی، علاقائی، نسلی اور جنس کی بنیاد پر عدم مساوات، ملکوں کے درمیان اور ملکوں کے اندر، کو مزید بڑھا رہی ہیں۔

بحران سے تحفظ (یا منافع کو برقرار رکھنے) کی لامحیط جستجو مالیاتی قیاس آرائی (financial speculation)کو بڑھاتی ہے۔ اس قیاس آرائی سے نظام کو اس طرح کا دیوالیہ ہونے کا خطرہ مستقل لاحق رہتا ہے جیسا کہ 2008 میں ہم نے دیکھا۔ 2008 کے بحران نے بینکوں کو زک پہنچانے کے ساتھ ساتھ جنرل موٹرز، فورڈ، جنرل الیکٹرکس، یا رئیل اسٹیٹ کی بڑی بڑی کارپوریشنز کو بھی متاثر کیا۔ شرح سود میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس مالیاتی قیاس آرائی کا کسادی(recessionary) کردار (جو محنت کش طبقے کے معیار زندگی میں کمی لاتا ہے)، ملکی اور نجی قرضوں کو بڑھاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں علاقائی اور عالمی سطح پر ڈیفالٹ کے حالات پیدا ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

Roznama Jeddojehad
+ posts