پاکستان

ٹرمپ عمران ملاقات اور منافقوں کی سامراج مخالفت

فاروق سلہریا

دو سال پہلے کی بات ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان بارے اپنی حکومت کی افغان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اپنے مخصوص متکبرانہ اور نسل پرستانہ انداز میں انہوں نے پاکستان کو اربوں ڈالر لینے کے باوجود امریکہ کا ساتھ نہ دینے کا طعنہ دیا۔ اس بیان کے جواب میں پاکستان کے حکمرانوں اور شہری مڈل کلاس طبقے کی غیرت ہڑبڑا کے جا اٹھی۔

فوری طور پر اس وقت کی مسلم لیگ نواز کی حکومت تو کچھ نہ بول پائی مگر متوسط طبقے کے سیاسی نمائندے عمران خان معروف امریکی چینل سی این این پر نمودار ہوئے۔ سی این این کی ہالہ غورانی نے عمران خان سے پوچھا: ”اگر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی امداد بند کر دی تو…“ عمران خان کا جواب تھا: ”میں اپنی حکومت کو یہی مشورہ دوں گا (کہ امداد مت لیں)۔ ہمیں امداد کی ضرورت نہیں ہے۔“

اب عمران خان خود حکومت میں ہیں۔ بائیس جولائی کو انکی صدر ٹرمپ سے ملاقات طے ہے۔ میڈیا میں آنے والی خبروں کے مطابق ملاقات کا ایجنڈا وہی ہے جو پچھلے ستر سال سے رہا ہے۔ امریکہ سے درخواست کی جائے گی کہ انکل سام ایک مرتبہ پھر پاکستانی حکمرانوں کو اپنی پناہ میں لے لیں۔ ڈالروں کی بھیک مانگی جائے گی۔ ڈبل گیم کی معافی مانگی جائے گی۔آئندہ جنگوں میں بھر پور تعاون کی یقین دہانی کرائی جائے گی۔

دو سال پہلے سی این این کودئیے گئے عمران خان کے انٹرویوکا ذکر پاکستان کا میڈیا کرے گا نہ امریکہ کا۔ اتفاق سے وہ انٹرویو ان دنوں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حامیوں نے فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر خوب شیئر کیا تھا اور یہ تاثر دیا گیا تھاکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستان کے ”سامراج مخالف“ رہنما کی طرف سے منہ توڑ جواب دے دیا گیا ہے۔

ویسے تو عمران خان اپنی بد تمیزیوں کی وجہ سے شہ سرخیوں میں رہتے ہی ہیں مگرصدر ٹرمپ کی طعنے بازی پر عمران خان کے نائب اور پی ٹی آئی کے ”سافٹ امیج“ اسد عمر نے عمران خان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ ایک ٹی وی ٹاک شو کے دوران وہ جذبات کی رو میں بہہ گئے۔ انہوں نے ڈالروں کے طعنے پر صدر ٹرمپ کے منہ پر تھپڑ مارنے کی معصومانہ خواہش کا اظہار بھی کر دیا تھا۔

افسوس مجوزہ بائیس جولائی والی ملاقات میں ہمارے ”سامراج مخالف“ وزیر اعظم اپنے ہمراہ اسد عمر کو نہیں لے جا رہے ورنہ سفارتی آداب اور اسد عمر کا شوقِ باکسنگ کافی نازک صورتحال پیدا کر سکتے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دو سال قبل عمران خان جو مشورہ وفاقی حکومت کو دے رہے تھے اس پر صوبہ پختونخواہ میں ان کی اپنی صوبائی حکومت عمل نہیں کر رہی تھی۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ اس صوبائی حکومت میں پی ٹی آئی کے ساتھ جماعت اسلامی بھی بطور اتحادی شامل تھی جو پی ٹی آئی سے بھی زیادہ ”سامراج مخالف“ ہے۔

اب ذرا عمران خان کے دو سال پہلے والے نعروں اور اسد عمر کی انقلابی بیان بازی کی حقیقت دیکھئے:

خیبر پختونخواہ کے اُس وقت کے بجٹ میں کم سے کم دس ایسے منصوبے تھے جو یو ایس ایڈ کی مدد سے چلائے جا رہے تھے۔ کم سے کم ستر ایسے ترقیاتی منصوبے تھے جو امریکہ، برطانیہ، جاپان اور یورپ کے دیگر ’کافر‘ ملکوں کے ’حلال‘ پیسوں سے چل رہے تھے۔ دو سال قبل خیبر پختونخواہ کا جو بجٹ پیش کیا گیا اس میں کہا گیا تھا کہ اربوں روپے کے منصوبے سامراجی ملکوں سے ملنے والی امداد سے چلائے جائیں گے۔ خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی گزشتہ حکومت نے کم از کم چودہ منصوبے امریکی اور دیگر سامراجی حکومتوں کی مدد سے چلائے۔

اسے محض اتفاق ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ اس صوبے میں پندرہ سال پہلے ایم ایم اے کی با ریش حکومت بنی تھی۔ امریکہ تو خیر بے شرم ہے‘ ایم ایم اے کو بھی شرم نہ آئی کہ یو ایس ایڈ سے ایک درجن سے زائد منصوبوں کے نام پر بھی ڈالر لیے اور ورلڈ بنک سے قرض بھی لیا گیا۔ (انگریزی زبان میں اس کی تفصیلات راقم کی اس رپورٹ میں موجود ہیں)

ایم ایم اے جب صوبائی حکومت چلا رہی تھی ان دنوں اسے افغانستان میں ہونے والے مظالم پر بھی شدید غصہ تھا مگر اتفاق سے نیٹو کے اسلحے سے لدے ٹرک صوبہ خیبر پختونخواہ سے گزر کر طورخم کے راستے ہی افغانستان پہنچ رہے تھے۔ جب ایم ایم اے کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو امریکی ڈرون حملوں میں شدت آ گئی۔ ان ڈرون حملوں کے خلاف عمران خان ایک ریلی لے کر وزیرستان پر مارچ کرتے ہوئے دکھائی دئیے۔ اُن دنوں ٹاک شوز کے ذریعے زید حامد جیسے ”سامراج مخالفوں“ نے ہمیں بتایا کہ امریکہ نے دئیے تو بارہ چودہ ارب ڈالر ہیں مگر ہمارے انفرا سٹرکچر کو تیس چالیس ارب ڈالر کا نقصان پہنچا دیا ہے۔

بائیس جولائی کی ملاقات سے قبل عمران خان کو فقط یہ یاد دلانا تھا کہ وہ اپنا سی این این کو دیا ہوا انٹرویو مت بھولیں۔ اگر صدر ٹرمپ امداد آپ کی جیب میں ڈالنے کی کوشش بھی کریں تو امریکی بہلاوے میں مت آویں۔ اسی طرح ہمارے انفراسٹرکچر کو جو نقصان پہنچا اس کا تیس ارب ڈالر کا بل وائٹ ہاوس سے ضرور کیش کرواتے لائیں۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔