خبریں/تبصرے

سعودی طالبان تعلقات کی تاریخ بہت بری ہے، افغانوں کیساتھ ظلم ہوا ہے: ترکی الفیصل

لاہور(جدوجہد رپورٹ)سابق سعودی سفارتکار اور انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل کا کہنا ہے کہ نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملے کا فیصلہ بہت بڑی غلطی تھی۔ اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد مشن کی تکمیل کا اعلان کرتے ہوئے انخلاء کی ڈیڈ لائن دے دی جانی چاہیے تھی۔ ایسا نہ ہونے کی وجہ سے اگست میں ہونے والے حالات دیکھنے پڑے ہیں۔

’سی این بی سی‘ کو دیئے گئے تفصیلی انٹرویو میں افغانستان کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے شہزادی ترکی الفیصل کا کہنا تھا کہ اتحادی فوجوں کے انخلاء کے بعد ناگزیر تھا کہ طالبان کابل پر قبضہ کر لیں کیونکہ امریکہ نے انہیں موقع فراہم کیا۔ جس نااہلی، غیر ذمہ داری یا بد انتظامی کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا یہ بہت حیران کن تھا۔ 20سال کا طویل عرصہ، اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری اور فوج کی ایک بڑی تعداد کے باوجود یہ سب واقعات بہت حیران کن تھے۔ انخلاء کے نتائج اس سے مختلف ہونے چاہئے تھے۔

انکا کہنا تھا کہ ویتنام سے اسی طرح کے انخلاء کے بعد قریبی ملکوں پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے تھے اور تمام خطوں میں بائیں بازو کی تحریکوں کو تقویت ملی تھی، تاہم افغانستان سے انخلاء کے بعد ابھی کچھ واضح طور پر کہا نہیں جا سکتا لیکن امکانات موجود ہیں کہ اس کے قریبی ملکوں پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے طالبان کے ساتھ ایک بہت بری تاریخ موجود ہے۔ سعودی عرب نے ملا عمر کو کہا کہ اسامہ بن لادن کو حوالے کیا جائے، اگر اس وقت وہ مان لیتے تو نائن الیون کے بعد والی صورتحال نہ ہوتی۔ شاہ عبداللہ نے بھی طالبان کے وفد کا استقبال کیا، طالبان اور القاعدہ کے تعلقات کے خاتمے کی صورت ثالثی کی پیشکش بھی کی لیکن نتائج نہیں نکل سکے۔

انکا کہنا تھا کہ امریکہ کو طالبان سے مذاکرات پر کس نے مجبور کیا، یہ تو مجھے معلوم نہیں ہے لیکن یہ طریقہ نہیں تھا کہ نمائندہ حکومت کو بائی پاس کر کے ایسا کیا جائے اور ڈیل کر کے حکومت کو بتایا جائے، یہ غلط طریقہ تھا۔ ایسے وقت میں جب طالبان کے القاعدہ سے قریبی تعلقات بدستور موجود ہیں، امریکی ہتھیاروں کی بھاری مقدار کا طالبان کے ہاتھ لگنا خطرناک اور تشویشناک ہے۔ القاعدہ نے سب سے پہلے 1996ء میں سعودی عرب کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا تھا۔ اب بھی سعودی عرب کو اس کے خدشات لاحق ہیں۔

انکا مزید کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان میں القاعدہ اور بن لادن کی وجہ سے گیا تھا، طالبان دشمن کے طورپر نہیں گیا تھا۔ 2001ء میں طالبان کا وفد نائن الیون سے قبل امریکہ میں مذاکرات کیلئے موجود تھا، طالبان حکومت کو تسلیم کئے جانے کیلئے مذاکرات کئے جا رہے تھے۔ نائن الیون کے بعد بھی طالبان وفد امریکہ گیا، ان مذاکرات کی اصل وجہ کا پتہ نہیں کہ وہ اسامہ بن لادن کی حوالگی سے متعلق تھے یا گیس پائپ لائن سے متعلق تھے۔ تاہم یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ طالبان مذاکرات کے خواہ ہاں تھے، لیکن نائن الیون نے سب کچھ تبدیل کر دیا اور اس کی بنیادی وجہ اسامہ بن لادن تھے۔

انکا کہنا تھا کہ پاکستان، ایران، روس اور چین طالبان کے قریب ہیں۔ یہی ممالک وہاں نمائندگی بھی کر رہے ہیں اور ان کے سفارتکار بھی موجود ہیں۔ ان کے حق میں ان ملکوں کی طرف سے بیانات بھی آرہے ہیں، تاہم مستقبل میں وہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرینگے۔ ان تمام ملکوں کے وہاں اپنے اپنے مقاصد اور مفادات ہیں۔ پاکستان طالبان کا سپورٹر ہے، اسی طرح روس بھی انکا حمایتی ہے۔تاہم انکا کہنا تھا کہ سعودی عرب کو چین کے طالبان کے ساتھ تعلقات پر کوئی تحفظات نہیں ہیں۔

انہو ں نے کہا کہ 40سالہ جنگ کا شکار افغان عوام کو دنیا کی توجہ کی ضرورت ہے۔ امن کی تلاش اور اس صورتحال کے خاتمہ کیلئے دنیا کو توجہ دینی چاہیے۔ سوویت یلغار کے وقت سے ایران اور پاکستان میں لاکھوں مہاجرین ابھی بھی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پرمجبور ہیں، 40سالہ دکھ ہیں۔

انکا کہنا تھا امریکہ، سعودی عرب اور پاکستان کی مدد سے مل کر ’مجاہدین‘نے اس سوویت ظلم کا خاتمہ کیا لیکن مجاہدین نے ملکر حکومت بنانے کی بجائے آپس میں لڑنا شروع کر دیاتھا۔ اس وقت سعودی عرب نے انکی مدد اور رقوم بند کر دی تھیں اور کہا تھا کہ اس لڑائی کی کیفیت کی وجہ سے مدد نہیں کی جا سکتی۔ جب طالبان اقتدار میں آئے تو ان کی بھی ہم نے مدد نہیں کی، کیونکہ وہ بھی جنگ کا خاتمہ نہیں کر رہے تھے۔

انکا کہنا تھا کہ ابھی یہ فیصلہ نہیں سنایا جا سکتا کہ امریکہ کو شکست ہو گئی ہے، وہ افغانستان میں ہے یا نہیں ہے۔ امریکہ میں بھی اس پر بحث ہے۔ امریکہ کو ڈوبتا سامراج قرار دینا بھی ابھی قبل از وقت ہے۔ ٹیکنالوجی، ترقی اور دیگر وجوہات کی بنیاد پر ابھی بھی امریکہ نمبر ون ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts