اسلام آباد (حارث قدیر) پاکستان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران اعلیٰ تعلیم کو بتدریج مہنگا کیا گیا ہے اور مختلف جامعات کی فیسوں میں 80 سے 120 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔
فیسوں میں بے تحاشہ اضافے اور سرکاری جامعات میں گنجائش نہ ہونے کے باعث طلبہ کی ایک بڑی تعداد تعلیم کا سلسلہ ترک کرنے پر مجبور ہو رہی ہے۔
نجی جامعات میں بی ایس ڈگری پروگرام کی فی سمسٹر فیسیں 80 ہزار سے 1 لاکھ 30 ہزار روپے تک پہنچ چکی ہیں۔ سرکاری جامعات میں بھی تما م ڈگری پروگراموں کی فیسوں میں گزشتہ چند سالوں میں 100 فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ تاہم سرکاری جامعات میں سیلف فنانس کی نشستوں پر فیسیں کئی سو گنا بڑھا دی گئی ہیں۔
نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) میں بی ایس پروگرام کی فی سمسٹر فیسیں 1 لاکھ 29 ہزار سے 1 لاکھ 8 ہزار کے درمیان ہیں، کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد میں 1 لاکھ 22 ہزار، ایئر یونیورسٹی میں 70 ہزار سے 1 لاکھ 39 ہزار کے درمیان، فاؤنڈیشن یونیورسٹی میں یہی فیسیں 60 ہزار سے 95 ہزار روپے کے درمیان، رفاح انٹرنیشنل یونیورسٹی میں 70 ہزار سے 1 لاکھ 38 ہزار کے درمیان، شفا تعمیر ملت یونیورسٹی میں 60 ہزار سے 1 لاکھ 55 ہزار روپے کے درمیان، نمل یونیورسٹی میں 45 ہزار سے 1 لاکھ روپے کے درمیان، قائداعظم یونیورسٹی میں 50 ہزار روپے فی سمسٹر جبکہ سیلف فنانس پر 90 ہزار روپے فی سمسٹر، وفاقی اردو یونیورسٹی میں 30 سے 50 ہزار روپے فی سمسٹر جبکہ سیلف فنانس پر 70 سے 90 ہزار روپے کے درمیان، اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں 30 ہزار سے 1 لاکھ 35 ہزار روپے فی سمسٹرکے درمیان، پیر مہر علی شاہ ایرڈ اگریکلچر یونیورسٹی راولپنڈی میں 30 ہزار سے 95 ہزار کے درمیان فیسیں حاصل کی جاتی ہیں۔
سرکاری اور نیم سرکاری جامعات میں میرٹ پر آنے والے طلبہ کو چند سال قبل تک 15 سے 30 ہزار روپے فی سمسٹر کے درمیان تعلیمی اخراجات کرنا پڑتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہے، اب سرکاری اور نیم سرکاری جامعات میں میرٹ پر آنے والے طلبہ کو بھی 30 سے 50 ہزار کے درمیان فیسیں ادا کرنا پڑتی ہیں۔ سیلف فنانس پر تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ سرکاری جامعات میں بھی تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ 60 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے کے درمیان فیسیں سرکاری جامعات میں بھی وصول کی جا رہی ہیں۔
جامعات میں ٹیوشن فیس کے علاوہ لائبریری فیس، لائبریری سکیورٹی فیس، ایڈمیشن پراسیسنگ فیس، ڈیپارٹمنٹ سکیورٹی فیس، سروسز فیس، سپورٹس چارجز، ٹرانسپورٹ چارجز، میگزین فیس سمیت ایسی بہت سی سہولیات کی فیسیں بھی وصول کی جاتی ہیں جن میں سے اکثر سہولیات جامعات میں طلبہ کو فراہم ہی نہیں کی جاتیں۔
نجی جامعات کے علاوہ اب سرکاری جامعات نے بھی نجی عمارتیں کرائے پر حاصل کرتے ہوئے کمرشل پلازہ جات میں کیمپس شروع کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، ان کیمپسوں میں سیلف فنانس پر اضافی ڈیپارٹمنٹ چلائے جاتے ہیں۔ اسی طرح بہت سارے ڈیپارٹمنٹ ایسے چلائے جاتے ہیں جن کی ایکریڈیٹیشن کیلئے متعلقہ ریکوائرمنٹ پوری نہیں کی جاتی بلکہ اس کے برعکس ریگولیٹری ادارہ جات کے ساتھ مبینہ طور پر ملی بھگت سے یا ان کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے ایکریڈیٹیشن حاصل کی جاتی ہے۔
سابق طالبعلم رہنما اور وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد کے سابق طالبعلم آصف رشید کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے بجٹ میں کٹوتی کئے جانے اور جامعات کو ایچ ای سی کی جانب سے ملنے والے فنڈز میں کٹوتی کے بعد فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے سرکاری جامعات کو مالی خودمختاری حاصل کرنے کی ہدایات بھی فیسو ں میں اس بے تحاشہ اضافہ کی ایک وجہ ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ اس سب کے ساتھ ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ 20 سالوں کے دوران پورے پاکستان میں خال خال ہی نئی سرکاری جامعات کی بنیادیں رکھی گئی ہیں۔ اس کے برعکس بڑی تعداد میں نجی جامعات کا کاروبار شروع کیا جا رہا ہے، اسی طرح نجی کالجز اور سکولوں کا کاروبار عروج پر پہنچتا جا رہا ہے۔ ایک سنجیدہ کوشش کے تحت سرکاری تعلیمی اداروں کو تباہ اور برباد کرنے کی پالیسی حکمران طبقات کی طرف سے اپنائی گئی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ نئی سرکاری جامعات قائم نہ ہونے اور آبادی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے طلبہ کی ایک بڑی تعداد سرکاری جامعات میں داخلے حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتی ہے، انہیں پھر سیلف فنانس پر یا پھر نجی جامعات کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ تاہم ایسے طلبہ کی ایک بہت بڑی تعداد ہوتی ہے جو سرکاری جامعات میں داخلہ نہ ملنے پر مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ جاری نہیں رکھ پاتے ہیں۔
آصف رشید نے جامعات میں کرپشن، اقربا پروری، فیکلٹی پوری کرنے کیلئے وزٹنگ، ایڈہاک اور ڈیلی ویجز پر لیکچررز کی تقرری سمیت دیگر بے شمار انتظامی اور مالی مسائل کی بھی نشاندہی کی ہے، جن کی وجہ سے ان کے بقول سرکاری و نجی جامعات پر مختلف مافیا قابض ہو چکے ہیں۔ تقرریوں سے داخلہ جات تک ہونے والی بے ضابطگیوں کی نشاندہی اور مانیٹرنگ کرنے والا بھی کوئی موجود نہیں ہے۔
اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد کے سابق طالبعلم اسد ممتاز کہتے ہیں کہ فیسوں میں یکمشت اور بڑے پیمانے پر ہونے والا اضافہ گزشتہ 2 سے 3 سال کے دوران ہی ہوا ہے۔ ان کے نزدیک اس کی ایک وجہ کورونا وبا کے دوران تعلیمی سرگرمیوں کے تعطل کے دوران شاید طلبہ کی ایک مخصوص تعداد نے سمسٹرز فریز کروانے یا تعلیم کا سلسلہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور جامعات کو نقصان ہوا ہے، جسے پورا کرنے کیلئے یہ یکمشت فیصلہ جات کئے جا رہے ہیں۔ تاہم ایچ ای سی کے بجٹ میں کٹوتی سے بھی اس سارے معاملے پر اثر پڑا ہے۔
انکا کہنا ہے کہ مہنگائی اتنی نہیں ہوئی ہے جتنی فیسوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ قبل ازیں سالانہ 5 سے 10 فیصد یا اس سے کچھ زیادہ فیسوں میں اضافہ کیا جاتا رہا ہے، لیکن گزشتہ دو سالوں کے دوران بہت بڑے پیمانے پر اضافہ کیا گیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ اس کا نوٹس لیا جانا چاہیے اور اعلیٰ تعلیم کا حصول معاشرے کی تمام پرتوں کے طلبہ کیلئے آسان بنایا جانا چاہیے۔
ریوولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ(آر ایس ایف) راولپنڈی اسلام آباد کے آرگنائزرعمر عبداللہ کہتے ہیں کہ طلبہ اس معاشرے میں ایسے انوکھے صارفین ہیں جو بھاری معاوضے کے عوض خریدی گئی پراڈکٹ کے معیار سے متعلق کسی قسم کا کوئی سوال کرنے کا حق اور اختیار بھی نہیں رکھتے۔ من مانی فیسیں وصول کی جاتی ہیں، من مانے قوانین نافذ کئے جاتے ہیں، سمسٹر سسٹم کے نام پر ایک لیکچرر یا پروفیسر کو طالبعلم کے مستقبل کا مختار کل بنا دیا جاتا ہے۔
کسی قسم کا احتجاج کرنے، اپنی ادا کی گئی فیسوں کے بدلے میں سہولیات کی مانگ کرنے پر تعلیمی کیریئر برباد کرنے کا اختیار جامعات کے پاس ہے اور اس کے خلاف کسی قسم کی کوئی قانونی چارہ جوئی اس لئے بھی نہیں کی جا سکتی کہ داخلہ حاصل کرنے سے قبل ایک بیان حلفی طالبعلم سے دستخط کروایا جاتا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ طلبہ اس ملک میں سب سے بڑے صارف بن چکے ہیں، مستقبل کی فروخت کاری میں حکمران طبقات منافعے کمانے میں مصروف ہیں، اس لوٹ مار میں نسل نو کے مستقبل کو برباد کیا جا رہا ہے۔ ہر سطح پر جدید اور مفت تعلیم ہرنوجوان طالبعلم کا بنیادی حق ہے۔ جامعات کے سینڈیکیٹ میں طلبہ کا منتخب نمائندہ بیٹھنا چاہیے جو طلبہ کے مستقبل کے حوالے سے ہونے والے کسی بھی انتظامی، مالی یا نصابی و ہم نصابی فیصلہ پر نہ صر ف اثر انداز ہونے کی حیثیت رکھتا ہو بلکہ اس کی رضامندی دوسرے لفظوں میں طلبہ کی رضامندی کے بغیر کوئی بھی فیصلہ اور قانون سازی نہ کی جا سکے۔
انکا کہنا تھا کہ طلبہ یونین پر عائد پابندی نے حکمران طبقات کی اس لوٹ مار کی راہ ہموار کی ہے۔ طلبہ کو اپنے حقوق کے حصول کیلئے خود ہی صف آرا ہونا ہو گا، طلبہ کی منظم جدوجہد کے نتیجے میں نہ صرف حکمرانوں کو طلبہ یونین کی بحالی پر مجبور کیا جا سکتا ہے بلکہ طلبہ کے مستقبل سے کھلواڑ کو بند کروایا جا سکتا ہے۔