لاہور (جدوجہد رپورٹ) ٹریڈ جسٹس نیٹ ورک نے مطالبہ کیا ہے کہ انسداد کورونا ویکسین کے انٹیلیکچول پراپرٹی رائٹس کو ختم کیا جائے تاکہ پوری دنیا کو مفت ویکسین مہیا کی جا سکے۔ اس گروپ کا کہنا تھا کہ عوام نے انسداد کورونا ویکسین کی تیاری کیلئے ادائیگی کی، لیکن اب وہ نجی ملکیت کے طور پر موجود ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر یہ مطالبہ شیئر کرتے ہوئے ایک گراف بھی شیئر کیا گیا ہے، جس میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح اسٹرازینیکا ویکسین، فائزر، موڈرنا، جانسن اینڈ جانسن سمیت دیگر ویکسینوں کی تیاری کیلئے ٹیکس دہندگان کی رقم کو استعمال کیا گیا ہے۔
انسداد کورونا ویکسین کی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر عوامی رقوم کے خرچ ہونے سے متعلق ’فوربز‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ اور جرمنی انسداد کورونا ویکسین کی تیاری کیلئے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ (آر اینڈ ڈی) میں سرمایہ کاری کرنے والے سب سے بڑے ممالک رہے ہیں۔ امریکہ نے 2 ارب ڈالر جبکہ جرمنی نے 1.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ گزشتہ سال مارچ تک ویکسین کی تیاری میں ہونے والی مجموعی 5.9 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں سے 98.12 فیصد رقوم عوامی فنڈنگ سے ادا کی گئی ہیں۔
یہ رقوم بنیادی طور پر نجی کمپنیوں کو فراہم کی گئی ہیں اور ان رقوم کے استعمال سے تیار ہونے والی ویکسین سے منافع حاصل کرنے کا اختیار بھی انہی نجی کمپنیوں کو حاصل ہو گا، اس کے علاوہ انٹیلیکچول پراپرٹی رائٹس اور پیٹنٹ کی وجہ سے چھوٹے اور ترقی پذیر ممالک کے ساتھ یہ ٹیکنالوجی بھی شیئر نہیں کی جا سکتی۔ اس طرح نجی کمپنیاں ویکسین کی فروخت سے منافع کمانے میں تو مصروف رہیں گی لیکن دنیا کی بڑی آبادی ویکسینیشن سے محروم رہے گی۔
فوربز کی رپورٹ کے مطابق نجی کمپنیوں موڈرنا اور جانسن کو 900 ملین ڈالر سے زائد کی رقم پبلک فنڈنگ سے حکومت کی طرف سے فراہم کی گئی، فائزر اور بائیونٹک نے تقریباً 800 ملین ڈالر حاصل کئے۔ ان تینوں کمپنیوں میں لگائی گئی تمام رقم عوامی فنڈنگ سے مہیا کی گئی۔
یاد رہے تمام نجی کمپنیوں کے بھرپور دباؤ کی وجہ سے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے انٹیلیکچول پراپرٹی رائٹس اور پیٹنٹس کو عارضی طور پر معطل کرنے کے مطالبے پر بھی امریکی صدر جو بائیڈن پیٹنٹ ہٹانے کی منظوری نہیں دے سکے تھے۔