لاہور (جدوجہد رپورٹ) افغانستان میں طالبان نے 2 انسانی حقوق کی کارکن خواتین کو گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق بدھ کے روز دونوں خواتین کو گرفتار کیا گیا ہے۔ تمنا زریاب پریانی اور پروانہ ابراہیم خیل نے چند روز قبل 16 جنوری کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں منعقدہ ایک احتجاج کی قیادت کی تھی۔
یہ احتجاج طالبان کی جانب سے خواتین کے قتل اور لاپتہ کئے جانے کے اقدامات کے خلاف منعقد کیا گیا تھا۔ تاہم احتجاج کی قیادت کرنے والی رہنماؤں کو بھی لاپتہ کر دیا گیا ہے۔
احتجاج کے شرکا نے حجاب کو لازمی ڈریس کوڈ قرار دیئے جانے کے اقدام کے خلاف بھی احتجاج کیا تھا۔ احتجاج میں شریک ایک خاتون نے سفید برقع پہن رکھا تھا جس پر سرخ رنگ پھینک کر اسے ایک خون آلود برقعے کے طور پر پیش کیا گیا تھا، جس کا مقصد خواتین کے قتل عام کے خلاف احتجاج کرنا تھا۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک ویڈیو میں ایک خاتون کو برقع اتار کر احتجاجاً نیچے پھینکتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک اور خاتون نے مذکورہ برقعے پر پاؤں مارتے ہوئے برقعے پہننا لازمی قرار دیئے جانے کے خلاف نعرے بھی لگائے تھے۔
گرفتار ہونے والی 23 سالہ پروانہ ابراہیم خیل سے متعلق معلوم ہوا ہے کہ وہ سابق صحافی ہیں، انہیں اور ان کے بہنوئی کو ایک سرکاری دفتر میں طلب کیا گیا تھا جہاں سے ان دونوں کو گرفتار کیا گیا۔
خواتین کے حقوق کی کارکن تمنا زریاب پریانی کو کابل میں واقع انکی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے گرفتاری سے قبل ایک ویڈیو بھی شیئر کی، جس میں وہ بتا رہی ہیں کہ طالبان سپاہی ان کے گھر کے باہر ہیں، انکی مدد کی جائے۔ انہوں نے ویڈیو میں طالبان سے بھی استدعا کی کہ وہ اگلے روز دن کے وقت آئیں، ہم بات کر سکتے ہیں، اس وقت ہم دروازہ نہیں کھول سکتے، کیونکہ گھر میں صرف لڑکیاں ہیں۔ تاہم طالبان نے ان کی بات نہیں مانی اور انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
ادھر معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ احتجاج میں شرکت کرنے والی دیگر خواتین کارکنان کے گھروں پر بھی چھاپے مارے گئے ہیں اور ان کی بابت پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔