خبریں/تبصرے

وارث میر انڈر پاس کا نام بدل کر کشمیر انڈر پاس: یہ حامد میر کو سبق سکھایا جا رہا ہے!

فاروق طارق

لاہور کی معروف کینال روڈ پر، جہاں پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کی حدود شروع ہوتی ہیں، واقع انڈر پاس کو پروفیسر وارث میر کے نام سے منسوب کیا گیاتھا۔ گزشتہ روز (23 اگست) حکومت نے وارث میر انڈر پاس کا نام تبدیل کر کے اسے ”کشمیر انڈر پاس“ کا نام دے دیا ہے۔

وارث میر ضیا آمریت کے دور میں مزاحمت کا استعارہ تھے۔ روزنامہ جنگ میں ان کے کالم اس دور میں شاید سب سے زیادہ پڑھے جانے والے کالم تھے۔ وہ مذہبی جنونیوں کے بھی سخت نقاد تھے۔ وہ بطور استاد سالہا سال پنجاب یونیورسٹی کے شعبہِ صحافت سے وابستہ رہے۔ ان کے سینکڑوں شاگرد شعبہ ِصحافت سے آج بھی وابستہ ہیں۔ اس مناسبت سے بھی مذکورہ انڈر پاس کو ان کے نام سے منسوب کرنا ایک مستحسن اقدام تھا۔ آج کی نئی نسل کے لئے ان کا ایک تعارف یہ بھی ہے کہ وہ معروف صحافی اور اینکر پرسن حامد میر کے والد تھے۔

انڈر پاس کا نام بدلنے کاموجودہ اقدام کئی لحاظ سے قابل ِ اعتراض ہے۔

اول، موجودہ حکومت کشمیر پر سودے بازی کر نے کے بعد اب اس قسم کی حرکتیں کر کے اپنے دامن پر لگے داغ دھونا چاہتی ہے۔ یہ اقدام محض ایک سیاسی شعبدہ بازی ہے۔

دوم، کشمیر کی جنگ وارث میر جیسے ترقی پسند کشمیری کے نام کو یک طرفہ طور پر ختم کر کے نہیں لڑی جا سکتی۔

سوم، انڈر پاس کا نام تبدیل کر کے حامد میر کو سبق سکھایا جا رہا ہے۔ حامد میر سے حکومت ناراض ہے کیونکہ حامد میر ایک آزادانہ نقطہ اختیار کر رہے ہیں۔

آخری بات، اگر حکومت کشمیر کے نام پر کچھ کرنا ہی چاہتی ہے تو درجنوں ایسی بے نام عمارتیں اور جگہیں لاہور میں موجودہیں جنہیں کشمیر سے منسوب کیا جا سکتا ہے یا کوئی نئی عمارت کشمیر کے نام سے منسوب کی جا سکتی ہے۔ ایک ترقی پسند دانشور اور انقلابی صحافی کی یاد کو مٹا کر کشمیر سے اظہارِ یکجہتی ایک منافقانہ عمل ہے۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ مذکورہ انڈر پاس کو دوبارہ سے پروفیسر وارث میر سے منسوب کیا جائے۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔