دنیا

کٹھنائیوں سے برسرپیکار عورت

صائمہ بتول

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں روزگار نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان حسین و جمیل وادیوں کو چھوڑ کر نوجوانوں کی بڑی تعداد روزگار کے سلسلے میں بیرونِ ملک ہجرت کرنے پر مجبور ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت اس جنت جیسی وادی،جس کو سامراجی طاقتوں نے برباد کر دیا ہے، کو چھوڑ کر اپنی زندگی عرب کے تپتے صحراؤں یا یورپ کی سرد ہواؤں کے سپرد کرنے پر مجبور ہے۔

پاکستان میں جاری سیاسی عدم استحکام اور معاشی ابتری،روپے کی قدر میں گراوٹ نے اس خطے کے گھرانوں کو مزید برباد کر دیا ہے۔ اس بربادی میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والی تعداد پھر خواتین کی ہے۔ خواتین پر گھر سنبھالنے کی ذمہ داری کے ساتھ بچوں کی دیکھ بھال،سودا سلف لانے سے لے کر کسی بیماری کی صورت میں ہسپتالوں میں مشکل حالات سے گزرنابھی معمول کی بات ہے۔پسماندگی اور رجعت میں خواتین کو اکیلے ہی بقا کی جنگ لڑنا پڑتی ہے۔ کہنے کو تو یہ باتیں آسان لگتی ہیں لیکن جب کسی عورت کو ان مشکلات سے گزرنا پڑھتا ہے تو باقی زندگی کی ہر ایک خواہش،ہر ایک خوشی چھن جاتی ہے۔

گاوں میں رہنے والی خواتین کی زندگیاں زیادہ مشکل ہیں۔گھاس کاٹنا،جنگلوں سے لکڑیاں کاٹ کر لانا،میلوں دور سفر کر کے چشموں سے پانی بھر کر لانا، مویشیوں کی دیکھ بھال اور گھر کے دیگر کاموں میں الجھی ہوئی خواتین سکون کے دو پل بھی گزارنے کی متحمل نہیں ہو پاتیں۔ اس نظام کی مسلسل گراوٹ کی وجہ سے خواتین کے لیے ہر گزرتا دن زیادہ خوفناک زیادہ مایوس کن ہوتا جا رہا ہے۔مسائل کی آماجگاہ میں اس خطے کی اکثریتی خواتین کا دوہرا،تہرا استحصال ہو رہا ہے۔

معاشی مسائل کی وجہ سے بہت سی خواتین تعلیم حاصل کرنے سے ہی قاصر ہیں۔ہاں پاکستان کی نسبت یہاں خواتین کی پڑھی لکھی تعداد زیادہ ہے۔ تاہم تعلیم کے کاروبار نے خواتین سے بھی تعلیم چھیننا شروع کر رکھی ہے۔ سکول کالج اور یونیورسٹی جانے والی طالبات کو جنسی ہراسانی،بلیک میلنگ و دیگر مسائل کا سامنا ہے۔

پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں سکولوں کی عمارتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔سخت سرد اور سخت گرم موسم میں بچیاں کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پہ مجبور ہیں۔ ان تمام تر مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد جب خواتین تعلیم حاصل کر لیتی ہیں،تو ان کے لیے روزگار کے ذرائع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ خواتین تو بیرون ملک ہجرت بھی نہیں کر پاتیں۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں 5 ہزار جتنی قلیل تنخواہ پہ نوکری کرنے کے علاوہ اس خطے کی خواتین کے پاس معاشی طور پہ خود کفیل ہونے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے۔ سرکاری طور پر خواتین کے لیے ایک فیصد سے بھی کم مواقع ہیں اور وہاں بھی میرٹ کی پامالی ہے۔ حکمران جماعتوں کے سربراہان اپنے ہی ووٹرز،سپورٹرز کو نوازنے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔

ایسے حالات میں جب باشعور خواتین سیاسی میدان میں اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے آتی ہیں،تو خاندانی و معاشی استحصال کے علاؤہ سماجی دباؤ کا شکار بھی ہونا پڑتا ہے۔ بنیاد پرست اور فرسودہ روایات کی وجہ سے طرح طرح کے الزامات اور دھمکیوں سے خواتین کو روکنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔

اس خطے میں پچھلے 9 ماہ سے بنیادی مطالبات کے حصول کی خاطر عوام سڑکوں پہ سراپا احتجاج ہیں، طویل المدت دھرنے جاری ہیں۔ آٹے سمیت دیگر بنیادی اشیاء ضرورت پر سبسڈی، بجلی کی پیداواری لاگت، حکمران طبقات کی مراعات کے خاتمے اور دیگر مطالبات کے گرد بننے والی عوامی حقوق تحریک پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں تاریخ کی سب سے نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ اس تحریک میں جہاں طلبہ، تاجر برادری، ٹرانسپورٹرز اور عام عوام نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے،وہیں خواتین کا کردار بھی نمایاں حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

ریاست کے کریک ڈاون میں جب کئی جگہوں سے دھرنے اکھاڑ دئیے گئے مزاحمت کاروں کو گرفتار کر لیا گیا،تو وہاں خواتین نے دھرنوں کو نئے سرے سے منظم کر کے ریاست کو یہ باور کروایا کہ اس تحریک میں صنفی امتیاز کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ خواتین کی شمولیت نے جہاں ریاست کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا،و ہیں بنیاد پرست اور فرسودہ نظریات کے حامل لوگوں کی چیخیں بھی سنائی دینے لگی۔ کچھ جگہوں پر احتجاجوں میں شرکت کرنے والی خواتین کو قتل کرنے اور ریپ کرنے کی گھناؤنی دھمکیاں تک دی گئیں۔ کئی جگہوں پر خواتین کی احتجاجی مظاہروں پہ شرکت پہ پابندی لگانے کی کوشش بھی کی جاتی رہی۔رجعتی مکتبہ فکر کی طرف سے ہر ممکن کوشش کی گئی کہ خواتین کو تحریک کے ساتھ جڑنے سے روکا جائے۔

10 اکتوبر کو پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے ہر شہر میں مہنگی بجلی،آٹے اور اشیائے خوردونوش پہ سبسڈی بحالی اور دیگر مطالبات کے گرد خواتین کے تاریخی احتجاج ہوئے۔جموں کشمیر میں عوامی حقوق تحریک میں پہلی بار خواتین نے بڑی تعداد میں سڑکوں پر احتجاج کر کے ثابت کیا کہ خواتین آبادی کا نصف ہیں اور ان کی شمولیت کے بغیر کسی بھی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کیا جا سکتا۔

دوسری طرف پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں بلوچ خواتین نے ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں مسنگ پرسنز کی بازیابی کے لیے بہترین مارچ کے بعد سخت سرد موسم میں دن رات دھرنا جاری رکھا۔ نہتی بلوچ خواتین اور ان کے ساتھ چھوٹے بچوں پر سرد راتوں میں ٹھنڈے پانی کا چھڑکاؤ کیا گیا۔ انھیں گرفتار کیا گیا،ان پہ تشدد کیا گیا اور دھرنے کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس سارے جبر کا انتہائی دیدہ دلیری سے سامنا کرتے ہوئے خواتین نے نہ صرف دھرنا جاری رکھا بلکہ تحریک کو ایک نئی سمت دینے میں بھی کامیاب ہوئیں۔

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی خواتین نے اسلام آباد میں بلوچ دھرنے کے شرکا سے اظہار یکجہتی کیا ان کے ساتھ دھرنے میں راتیں گزاریں اور یہ پیغام دیا کہ طبقاتی جڑت کی بنیاد پہ کوئی لڑائی لڑنا مشکل نہیں ہے۔خواتین کو بنیادی حقوق کی لڑائی کے ساتھ ساتھ حقوق نسواں کی لڑائی بھی لڑنا پڑتی ہے۔ خواتین چومکھی لڑائی لڑنا بھی جانتی ہیں اور انھیں حکمران طبقے کا کوئی بھی پینترا تحریکوں کے ساتھ جڑنے سے نہیں روک سکتا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ خواتین سمیت محنت کشوں کی زندگیوں کو برباد کرنے والا یہ نظامِ زر تیزی سے اپنے موت کی طرف گامزن ہے۔ سامراجی طاقتوں میں عدم توازن محنت کشوں کی زندگیوں پر مزید حملے کرنے کے در پے ہے۔ ایسے حالات میں جنسی تفریق سے بالاتر ہو کر محنت کش مرد و خواتین اور طلباء و طالبات کو جدوجہد میں کردار ادا کرنا ہو گا۔

اس نظام کو اکھاڑے بغیر اکثریت کے حالات کو بدلہ نہیں جا سکتا۔ آئیے مل کر اس ظالم و جابر نظام کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے طبقاتی بنیادوں پر جدوجہد کو تیز کرتے ہوئے ایک نئے سماج کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں۔ایک ایسا سماج جہاں انسان حقیقی معنوں میں انسانیت کی معراج کو پہنچ پائے۔جہاں عورت و مرد کو برابری کی بنیاد پر جینے کا حق حاصل ہو۔

Saima Batool
+ posts

صائمہ بتول جے کے این ایس ایف کی رہنما ہیں۔