فاروق طارق
جب عمران خان روس کے دورے پر پہنچے تو جہاز سے اترتے ہی انہوں نے ایک نامناسب اور بے وقت بات کی کہ ”وہ ایک دلچسپ وقت میں یہاں آئے ہیں“ وہ روس کی یوکرین پر جارحیت کاحوالہ دے رہے تھے۔
اب اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پیش ہونے، علیم خان اور ترین گروپ کی کھلی بغاوت کے بعد انہیں احساس ہوا ہو گا کہ ”سیاسی طور پر دلچسپ وقت“ کیسے ہوتے ہیں؟ عمران خان کی ابتدائی بوکھلاہٹ قابل دید تھی، گالم گلوچ، دھمکیوں اور نام بگاڑ بگاڑ کر پیش کرنے سے اپنا غصہ اتارنے کی کوشش نے انہیں سیاسی طور پر سنجیدہ حلقوں میں مزید غیر مقبول کر دیا۔
وہ اب اسلام آباد میں عدم اعتماد سے پہلے ”تاریخ“ کا سب سے بڑا جلسہ عام کرنا چاہتے ہیں۔ اس اعلان سے انہوں نے واضح کر دیا کہ وہ اپنے منحرف اراکین کو روکنے کا ہر حربہ آزمائیں گے، تاکہ وہ ان کے خلاف ووٹ نہ ڈال سکیں۔ جلسہ عام کی دھمکی اہم اور عمران خان کے اقتدار سے چمٹے رہنے کے لئے کچھ بھی کرنے کا اظہار ہے۔ وہ تکنیکی اور دھمکیوں کے دونوں طریقوں کا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ سنسنی خیز واقعات سامنے آ رہے ہیں، کیونکہ عمران حکومت کے خاتمے کا ایک واضح خطرہ موجود ہے اور عمران خان اس کو ہر صورت روکنا چاہتے ہیں۔
عوام میں عمران خان کے جانے کے امکان نظر آنے کی حمایت نظر آ رہی ہے۔ گزشتہ روز ہی گھی کا ایک ٹن ڈیڑھ سو روپے مزید مہنگا ہوا ہے۔ مہنگائی اس حکومت کی پہچان بن چکی ہے اور صرف ایک یہی ایشو عمران خان کی غیر مقبولیت میں سب سے اہم عنصر بن کر سامنے آیا ہے۔ یہ ایک ایسی حکومت ہے جس کو فوری طور پر ختم ہونے پر بھی عوام کو کچھ ریلیف نظر آ رہا ہے۔ یہ دلیل کہ ایک عوام دشمن حکومت کے 5 سال پورے کرنے پرجمہوریت مضبوط ہو گی، ایک خام خیالی ہے۔ عمران خان کے 5 سال پورا کرنے سے جمہوریت نہیں معاشی اور سیاسی آمریت اور مضبوط ہو گی۔
تاہم عمران خان کا 5 سال پورے کرنے کا خواب پورا ہوتانظر نہیں آتا۔ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں بھی ہوتی تو کوئی اور صورتحال انہیں 5 سال پورا کرنے سے روک سکتی ہے۔
شدید معاشی بحران میں عمران خان کے اربوں کے پیکیج آئی ایم ایف کو ناراض کر رہے ہیں۔ وزیر خزانہ کو بار بار آئی ایم ایف کو منانا پڑ رہا ہے، ان کی وضاحتیں کوئی زیادہ قائل کرنے والی نہیں ہیں۔ عمران خان کی مذہبی جنونی ووٹ بینک کو متوجہ کرنے کے لئے یورپی یونین کے خلاف بڑھک بازی ان کی تجارتی بنیادوں کو کمزور کر سکتی ہے اور جی ایس پی پلس کی واپسی کا راستہ کھول سکتی ہے۔
ماسکو کا دورہ امریکی سامراج کی ناراضگی کا باعث بنا ہے۔ امریکی سامراج نے بھی اس کی وضاحت مانگی ہے۔ عمران خان کے کچھ وزیر اپنے ہی لیڈر کی تنقید سے نالاں ہیں اور عمران خان بھی وضاحتیں دیتا پھر رہاہے۔
معاشی پالیسیاں عوام کو ناراض کر رہی ہیں، ان کے نزدیک پاکستان اب بھی سستا ملک ہے۔ وہ پاکستان میں مہنگائی یورپ کی سطح پر اور آمدن نیپال کی سطح پر لانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری عوام کی بڑی تعداد کو اس سے دور کر چکی ہے۔
عمران خان کی اپنی جماعت کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہے اورگروپ بن رہے ہیں۔ ممبران اسمبلی کو فکر پڑی ہے کہ وہ آئندہ کس طرح جیتیں گے کیونکہ تحریک انصاف اب ووٹ پلس عنصر نہیں رہا۔
یہ پس منظر عمران خان کو بوکھلا رہا ہے، اس کی گھبراہٹ بڑھتی جا رہی ہے اور اس کی پس منظر سے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔
تحریک انصاف حتمی طور پر مسلم لیگ ق بنتی جا رہی ہے۔ عمران خان کا اقتدار خطرے میں ہے اور اقتدار کے باہر اب عمران خان ایک غیر مقبول لیڈر کے طور پر وہ نہیں کر سکتا جو وہ 2013ء کے بعد کرتا رہا ہے۔ اس کی دھمکیاں کھوکھلی ہیں اور بس اب گیا کہ کل گیا والی صورتحال درپیش ہے۔
ہمیں اپوزیشن سے بھی کوئی بہتری کی امید نہیں۔ ان کی معاشی پالیسیاں بھی عمران خان طرز کی ہیں۔ ایک سے جان چھوٹے گی تو دوسرے میں پھنس جائے گی۔ اس صورتحال میں ہمیں اپنا متبادل بیانیہ تعمیر کرنا ہے۔
لاہور میں 27 مارچ کو بائیں بازو کی ایک نئی سیاسی طاقت کے ظہور کا دن ہے۔ آئیے! آپ بھی مہنگائی، بے روزگاری، تعلیمی بحران اور ماحولیاتی تباہی کے خلاف آواز بلند کرنے میں ہمارا ساتھ دیں۔ اتوار 27 مارچ ناصر باغ لاہور کے عظیم اجتماع میں شرکت کریں۔