فاروق طارق
مولانا فضل الرحمان کا دھرنا اپنے دعوؤں کے مطابق عمران خان کا استعفیٰ تو نہ لے سکا مگر حکومت کا کافی حد تک تکبرضرور توڑ گیا۔ عمران خان ”این آر او نہیں دوں گا سے استعفیٰ نہیں دوں گا“ تک آ گیا تھا۔
اب دھرنے سے دھرنوں تک کے سفر کا اعلان کیاگیا ہے۔ انکے پلان بی کے مطابق وہ اب ملک کی مختلف شاہراؤں پر دھرنے دیں گے۔ اگرچہ یہ اعلان کافی حد تک ایک فیس سیونگ کے مترادف ہے مگر دھرنوں کے اعلان سے اس نے یہ ضرور واضح کر دیا ہے کہ حکومت کے لئے وہ مشکلات پیدا کرتے رہیں گے۔
دھرنے کے سفر کے دوران مولانا نے کافی بڑھک بازی کی اور استعفیٰ لینے پر بار بار اصرار کرنے سے وہ اپنی پوزیشن کمزور کرتے رہے۔ مولانا کا دھرنا کوئی عوامی بغاوت یاتحریک نہیں تھی یہ تو انکے اپنے پیروکاروں کا ایک منظم اجتماع تھا‘ جس کی انہوں نے بھرپور تیاری کی ہوئی تھی۔
مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں عام لوگ شریک نہ ہوئے۔ یہ مذہبی افراد کے ایک سالانہ اجتماع کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ اس میں اپوزیشن کی دیگر جماعتیں بھی شریک نہیں ہوئیں۔ صرف ٹوکن شمولیت کی گئی۔ سوائے پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے اور پہلے روز عوامی نیشنل پارٹی کا بھی اچھا خاصا جلوس تھا جو اس میں شریک ہوا۔
ایک غیر مقبول حکومت کے خلاف اس قسم کے دھرنے سے لوگوں کی امیدیں اس لئے وابستہ نہ ہوئیں کیونکہ یہ ایک مذہبی گروہ کے اپنے مذہبی ایجنڈے کو فروغ دیتا نظر آیا۔ اس دور میں مذہبی جنونیت پھیلانے والے گروہ ریاستی پشت پناہی سے کسی حد تک محروم نظر آتے ہیں۔ ایک مذہبی گروہ تحریک لبیک جس کو حکومت نے 2018ء کے عام انتخابات سے قبل مسلم لیگی ووٹوں کو توڑنے کے لئے استعمال کیا، انتخاب کے بعد ریاستی جبر کا شکار ہوا اور یہ واضح ہو گیا کہ ریاستی مخالفت میں یہ گروہ بہت آگے نہیں جا سکتے۔
مولانا فضل الرحمان نے اگرچہ ایک معقول تعداد اپنے اس ”آزادی مارچ“ میں اکٹھی کر لی تھی لیکن یہ سمجھنا کہ حکومت کی طے شدہ جگہ پر بیٹھ کر گفتگو سے اس حکومت کو گرایا جا سکتا ہے‘ جسے اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور حمائیت حاصل ہے ایک خام خیالی تھی۔
یہ کوئی عوامی تحریک نہیں تھی جو حکومت کو اپاہج کرتی یااس کو ہلا کر رکھ دیتی۔ اس میں محنت کش طبقات کی شمولیت نہ تھی اور نہ ہی راولپنڈی، اسلام آباد کے شہریوں کی۔
بہت کم کو یقین تھا کہ یہ دھرنا عمران خان کا استعفیٰ لے سکتا ہے۔ حکومت گرانے کے لئے جس عوامی مزاحمت اور بغاوتی تحریک کی ضرورت تھی وہ موجود نہ تھی۔
دھرنے کے آغاز میں مولانا اپنی تقریروں میں عوامی ایشوز کو اٹھاتے رہے اور اسے حکومت کے خاتمے سے جوڑنے کی کوششیں بھی کرتے رہے مگر آخری سات دنوں میں انہوں نے اپنا اصلی ایجنڈا پیش کرنا شروع کر دیا تھا جو رجعتی اورمذہبی تھا۔ ان کے اس رجعتی ٹرن سے مذہبی عناصر کے علاوہ دیگر نے ان سے مکمل کنارہ کشی کر لی۔
مولانا فضل الرحمان نے ایک دفعہ تو تمام سرمایہ دار پارٹیوں کو پیچھے دھکیل دیا تھا اوروہ اپوزیشن کے ایک موثر راہنما کے طور پر ابھر رہے تھے مگر اب اس دھرنے کے یک طرفہ خاتمے سے ان کی یہ پوزیشن سوالیہ نشان بنے گی۔ انکی جانب سے عمران خان کا استعفیٰ لینا تو دور کی بات وہ تو کوئی ایک بات بھی منوائے بغیر دھرنا ختم اور دوسرے فیز کا اعلان کر رہے ہیں۔ اگر پہلا فیز کامیاب نہیں تو دوسرے کا بھی اسی طرح کا حال ہو سکتا ہے۔
مولانا کے دھرنے کے یک طرفہ خاتمے سے یہ حکومت کوئی مضبوط نہیں ہو گی کیونکہ اس کی کمزوری کی وجوہات اپنی جگہ موجود ہیں۔ معاشی بحران بڑھ رہاہے اور مہنگائی تو نئے ریکارڈ توڑ رہی ہے۔ نیو لبرل ایجنڈے پر تیزی سے عمل درآمد کرانے کی تیاریاں ان کے لئے مزید مشکلات پیدا کریں گی۔