فاروق سلہریا
پکتیکا صوبے میں زلزلے سے ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک مقامی کلینک، جس میں پانچ بیڈ دستیاب ہیں، وہاں پانچ سو زخمیوں کو لایا گیا۔ ’فتح مکہ‘ کے بعد یہ حالت ہے افغانستان کی۔
ادہر، ابھی لاشیں اور زخمی ملبے تلے دبے تھے اور طالبان کا نمائندہ ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ’کافروں‘ سے بھیک مانگ رہا تھا۔ طالبان میں جس قدر بربریت پائی جاتی ہے کاش اس کا ہزارواں حصہ شرم کا بھی ہوتا۔ کاش تھوڑی بہت شرم پاکستانی نیوز چینلوں میں بھی ہوتی اور وہ بھی اپنے نمائندے پھر سے افغانستان روانہ کرتے تا کہ پتہ چلتا کہ ’فتح مکہ‘ کے بعد حالات کیا ہیں۔
کاش پاکستانی ناظرین کو دکھایا جا سکے کہ جن ’کافروں‘ کا قبضہ ختم کرانے کے لئے کل تک یہ وحشی طالبان معصوم افغان بچوں کو ہسپتالوں اور سکولوں میں قتل کر رہے تھے، آج ان ’کافروں‘ سے بھیک مانگ رہے ہیں۔ یاد رہے، یہ دہشت گرد گروہ توکل کی بات کیا کرتا تھا۔ اب توکل کی بجائے بھیک مانگی جا رہی ہے۔ کم از کم انصار عباسی اور اوریا مقبول جان کو ہی چاہئے کہ اپنے ہیروز کو کوئی شرم دلا دیں۔
ان وحشیوں سے مزید یہ بھی پوچھنا چاہئے کہ اگر تمہارے پاس افغانستان کی ترقی کا کوئی منصوبہ نہیں تھا تو تم اقتدار میں کیوں آئے ہو؟
ان وحشیوں سے زیادہ بڑے مجرم وہ لوگ ہیں جو انہیں ’سامراج دشمن‘ بنا کر پیش کرتے رہے ہیں۔ مغرب میں بیٹھے، ان میں بعض لوگ بائیں بازو سے بھی وابستہ تھے۔ معلوم نہیں ’سامراج دشمن‘ طالبان کے وکیلوں نے ’کافروں‘ سے بھیک مانگتے طالب کی پریس کانفرنس دیکھی یا نہیں لیکن امید رکھنی چاہئے کہ یہ وکیل حضرات افغان شہریوں کی مدد کے لئے سامنے آئیں گے۔
ساڑھے تین سو افراد ہیں پاکستان کی قومی اسمبلی میں۔ صرف ’غدار‘ محسن داوڑ کو خیال آیا افغان زلزلے کے متاثرین کا۔ امہ کے غم میں گھلنے والے باقی کسی ’محب وطن‘ رکن اسمبلی کو شائد معلوم بھی نہ ہو کہ پکتیکا میں ہزار مزید افراد سٹریٹیجک ڈیتھ کا شکار ہو گئے ہیں۔
(نوٹ: مندرجہ بالا تحریر کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ امریکی قبضے یا اس کے تسلسل کی حمایت کی جائے۔ امریکہ طالبان دہشت گردی کا والد ہے۔ افغانستان ٹریجڈی کا سب سے بڑا مجرم امریکہ ہی ہے۔ طالبان امریکی سامراج کی بگڑی ہوئی اولاد ہیں)
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔