حارث قدیر
پاکستانی نژاد طالبعلم احمد نواز آکسفورڈ یونیورسٹی یونین کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف، سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور رہنما احمد نواز کو مبارکباد دے رہے ہیں۔
تاہم ٹویٹر صارفین حکمران اشرافیہ کے بیانات کو دوہرا معیار قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ گزشتہ 37 سال سے پاکستان میں طلبہ یونین پر پابندی عائد رکھے جانے کے باوجود آکسفورڈ میں یونین انتخاب جیتنے والے پاکستانی نوجوان کو مثال قرار دینا مضحکہ خیز قرار دیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ احمد نواز ان طالبعلموں میں سے ایک ہیں جو 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک سکول میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں زندہ بچ گئے تھے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے ٹویٹرپر جاری بیان میں کہا گیا کہ ’عظیم اعزاز اور حوصلہ افزا سفر جو عزم اور مضبوط قوت ارادی سے ہوا ہے۔ اے پی ایس پشاور پر ہولناک حملے میں بچ جانے والے احمد نواز باوقار آکسفورڈ یونین کے صدر بن گئے ہیں۔ انہوں نے ہمارے نوجوانوں کیلئے قابل تقلید مثال قائم کی ہے۔ پاکستان کو احمد پر فخر ہے۔‘
اسی طرح تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بھی احمد نواز کو مبارکباد دیتے ہوئے لکھا کہ ’احمد نواز کو آکسفورڈ یونین کا صدر منتخب ہونے پر مبارکباد۔ یہ بہادر نوجوان جو 2014ء کے اے پی ایس دہشت گردانہ حملے میں بچ گیا، سب کیلئے ایک مثال ہے۔ احمد ہم سب آپ کے جذبے اور عزم کے ساتھ حاصل کی گئی مسلسل کامیابیوں پر فخر کرتے ہیں۔‘
ٹویٹر صارف طاہر نعیم ملک نے لکھا کہ ’تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے احمد نواز کو آکسفورڈ یونین کا صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی ہے۔ پاکستان کو نوجوان قیادت کی ضرورت ہے لیکن پاکستان میں طالب علم طلبہ یونین کے حق سے محروم ہیں۔ ہماری حکومتیں اس حق سے پاکستانی نوجوانوں کو محروم رکھنا چاہتی ہیں۔‘
ایک اور ٹویٹر صارف عمر آفتاب بٹ نے وزیر اعظم کے بیان کو شیئر کرتے ہوئے سوال کیا کہ ”ہمارے نوجوان اس کی تقلید کیسے کرینگے؟ اگر آپ کی پارٹی کی موجودہ یا پچھلی حکومتیں پاکستان میں 1985ء کے بعد سے طلبہ یونین پر عائدپابندی کو ہٹا دیتیں تو ایک نوجوان کے اس کارنامہ کا تذکرہ شاید کسی قدر مہذب نظر آتا۔‘
یاد رہے کہ اے پی ایس پشاور کے متاثرین آج بھی انصاف کیلئے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ احتجاج کر رہے ہیں اور انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ طلبہ یونین کی بحالی کیلئے گزشتہ 37 سال سے کسی نہ کسی نوعیت کا احتجاج جاری ہے۔ تاہم حکمران اپنے ملک میں نوجوانوں کو سہولیات اور مواقع فراہم کرنے کی بجائے بیرون ملک سمیٹی گئی کامیابیوں پر فخر کرنے پر ہی اکتفا کر رہے ہیں۔