خبریں/تبصرے

دنیا بھر میں بارش اور گرمی کا 115 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا

لاہور (جدوجہد رپورٹ) دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث موسموں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رواں سال گرمی اور بارشوں کا 115 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، یورپ اور چین میں شدید گرمی اور خشک سالی کے 115 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گئے، جبکہ دوسری طرف پاکستان، جنوبی کوریا اور دیگر خطوں میں شدید بارشوں کا 115 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ بارشوں کی وجہ سے سیلاب مکانات، املاک اور فصلیں برباد کرتے جا رہے ہیں۔

فورتھ انٹرنیشنل کے ترجمان اخبار ’انٹرنیشنل وئیو پوائٹ‘ کے مطابق جنوبی کوریا اور گرد و نواح میں گزشتہ کچھ سالوں میں غیر معمولی طور پر درجہ حرارت، خشک سالی، شدید برفباری اور سردی کی لہروں جیسے غیر معمولی شدید موسم کا سامنا رہا ہے۔ یہ گلوبل وارمنگ کے واضح نتائج میں سے ایک ہے۔

چین میں بھی بدترین گرمی کی لہر کا سامنا ہے، جاپان میں 1875ء میں ریکارڈ ہونے کے بعد اب تک کی بدترین گرمی کی لہر جاری ہے۔ آئی پی سی سی کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح کا درجہ حرارت 1850ء سے 1900ء کے درمیان اور 2011ء سے 2020ء کے درمیان کی دہائیوں میں 1.09 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا اور گزشتہ 5 سال 1850ء کے بعد سب سے زیادہ گرم رہے ہیں۔

1901ء سے 1971ء کے درمیان کے عرصہ کے مقابلے میں سطح سمندر میں اضافے کی شرح تقریباً تین گنا بڑھ گئی ہے۔ نہ صرف جزیرہ نما کوریا اور گرد و نواح میں بلکہ پوری دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کے خطرے کی نگرانی اور تشخیص کی منصوبہ بندی کے ذریعے تیار کئے گئے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی اشد ضرورت ہے۔

رپورٹ کے مطابق حکومتیں اور کارپوریشنیں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے میں ناکام رہی ہیں اور وسائل کے زیادہ استحصال اور بیکار اشیا کی مسلسل پیداوار کے ذریعے ماحولیاتی نظام کو تباہ کر دیا ہے۔ یہ واضح ہے کہ آب و ہوا کے مسئلے کو حکومتوں اور کارپوریشنوں کی قیادت میں گرین اکانومی اور مارکیٹ پر مبنی حکمت عملیوں سے حل نہیں کر سکتے۔ گلوبل وارمنگ، موسمیاتی تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ، نہ صرف قدرتی وجوہات کی وجہ سے ہوتی ہے بلکہ انسان کی بنائی ہوئی وجوہات بھی ہوتی ہیں۔ اس کے اثرات بڑھ رہے ہیں اور غریبوں پر پڑ رہے ہیں، جبکہ امیر حالات کو خراب کر رہے ہیں۔ پچھلی آفات میں وہ سماجی طور پر کمزور تھے جنہوں نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا تھا اور ایسے لوگوں کے پاس گھر اور زندگی تباہ ہونے پر اپنے آپ کو بحال کرنے کے ذرائع نہیں ہوتے۔

دوسری طرف حکومت نے گزشتہ 5 سالوں میں چند مراعات یافتہ طبقے کیلئے ٹیکس میں کٹوتی کی ہے اور کارپوریشنوں نے سرمایہ دارانہ پیداواریت کے ذریعے مجرمانہ منافع کے مسلسل حصول میں ترقی کی ہے۔ سرمایہ داری جس نے انسانوں کو سرمایہ جمع کرنے کا آلہ کار سمجھا ہے، اس نے فطرت کو بھی لوٹا ہے۔ سرمایہ داری کی تباہ کن منطق غربت اور ماحولیاتی بحران کی بنیادی وجہ ہے۔ حکومتوں کی عارضی اور ایڈہاک پالیسیاں تباہ کن موسمیاتی تبدیلیوں سے بچنے کیلئے ناکافی ہیں۔ لٹے ہوئے غریبوں کو، جو تباہی کی قیمت ادا کرینگے، غیر مساوی معاشروں میں موجود تضادات کو ختم کرنا ہو گا۔

Roznama Jeddojehad
+ posts