ولیم برگز
ولیم برگز کا یہ مضمون آسٹریلیا کے معروف سوشلسٹ جریدے گرین لیفٹ میں شائع ہوا۔ ’جدوجہد‘ کے لئے اسے سلیم شیخ نے ترجمہ کیا۔
اگر کسی کو سرمایہ دارانہ ریاست کی طاقت کو دیکھنا ہو تو ملکہ الزبتھ کی موت کے بعد سے جاری ڈرامہ اس طاقت کا ننگا ترین اظہار اور ریاست کی طاقت کی ایک یاد دہانی بھی ہے۔ ملکہ چاہے مر چکی اور اب دفن بھی ہو چکی مگر اسکی موت کا ماتم ابھی تک جاری و ساری ہے۔ سرمایہ دارانہ میڈیا نے اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس بات کا ڈھنڈورا پیٹ کر کہ ہم سب دراصل اس کی موت کے عظیم قومی و بین القوامی سانحہ کا یکساں حصہ ہیں، ایک افسانہ کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔
میڈیا نے اپنی افادیت کو منواتے ہوئے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ریاست کا ایک ایسا قابل بھروسہ ہتھیار ہے جس نے آج ایک بار پھر رائے عامہ کو اس طرح متحد کیا ہے جسے دیکھ کر ایڈولف ہٹلر کے پروپیگنڈہ وزیر جوزف گوئبلز کا سر فخر سے تن گیا ہو گا۔
ایک ماہ قبل تک بادشاہت، ملکہ اور اسکے مراعت یافتہ خاندان کا ذکر خال خال ہی کہیں ہوتا تھا مگر آج اگر کوئی پوری طرح سے برطانوی شاہی خاندان کا حامی نہ ہو تو یہ تقریباً غداری کے زمرے میں آتا ہے اور اب بات صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ المیہ ہے کہ اگر آج رائے شماری کروائی جائے تو عوام کی اکثریت اس تاریخی مغالطے یا تاریخی جھوٹ کے حق میں یاکم از کم آج کی تاریخ میں اس جھوٹ کے حق میں ہی ہوں گے۔
یہ ہے وہ میڈیا کی طاقت جو نہ صرف سوچ کو کنٹرول کر سکتی ہے بلکہ کنٹرول کر رہی ہے۔
سرمایہ دارانہ ریاست نے میڈیا کو استعمال کر کے معاشرے کے متضاد طبقات مثلاً مزدرو اور سرمایہ دار کے درمیان اتحاد کا احساس پیدا کیا ہے۔ یہ وہی اتحاد کا احساس ہے جس کے نام پر وہ اپنے ملک کے محنت کشوں کو کسی دوسرے ملک کے، ان کے ہی جیسے، محنت کشوں سے لڑنے کے لئے بھیجتا ہے۔
فریڈرک اینگلز نے اس جھوٹے احساس کے لیے شعورکاذب (False Consciousness) کی اصطلاح کا استعمال کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ محنت کش طبقہ اپنی خود کی رضا سے اپنے ہی استحصالی حکمرانوں کے نظریات کو خوشی خوشی اپنا لیتا ہے اور اسطرح دو ما بعد ازضدین طبقات کے درمیان موجود اساسی تضاد اور مخاصمت پر ایک دبیز پردہ سا پڑجاتا ہے اور یہ تضادات اس وقت تک انکی آنکھوں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی پوشیدہ رہتے ہیں جب تک کہ وہ پردہ اٹھ نہ جائے۔
دوسری جانب ان بیروزگاروں، غریبوں اور بے گھروں کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے جو اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ان کے اور ان لوگوں کے درمیان جو اس نظام کو چلا رہے ہیں اور جن کی پالیسیوں نے انہیں بیروزگار، غریب، اور بے گھر کیا ہے، دونوں کے مفادات ایک ہیں۔
محنت کشوں میں نہ صرف اس جھوٹے احساس کو پیدا کرنے بلکہ محنت کشوں کی جانب سے اس احساس کو اپنی رضامندی سے قبول کروانے کی یہ ریاستی کنٹرول کی طاقت بہت ہی غیر معمولی ہے۔
یہی برسوں کے اس طویل پروپیگنڈہ کا ثمر ہے جس نے آسٹریلیا کے محنت کشوں کے ایک حصہ کو اس بات کا یقین دلا دیا ہے کہ ایک آسٹریلوی ارب پتی کے انداز و اطوار اور اسکی دلچسپیاں بھی بالکل ویسی ہی ہیں جیسی کہ میری اور آپ کی۔
اس (شعور کاذب) کا نتیجہ غریب محنت کشوں کی جانب سے کم تنخواہوں کو پورے معاشرے کی بھلائی کے نام پر ایک قربانی کے طور پر قبول کرنا یا پھر نوجوانوں کا میدان جنگ میں سامراج کی حمایت میں اپنی جانون کو گنوا دینے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
ریاست اور میڈیا کی طاقت رائے عامہ کو کسی بھی سمت میں موڑ سکتی ہے مثال کے طور پر انیس سو اکانوے میں خلیجی جنگ کے نتیجے میں جارج بش سینئر کی مقبولیت 74 فیصد تک پہنچ گئی۔
آسٹریلوی میڈیا نے چین کے بارے میں عوامی جذبات کو اس حد تک بھڑکا دیا ہے کہ اب صرف کل آبادی کے بارہ فیصد لوگ ہی اس بات پر یقین رکھتے ہیں چین کسی بھی معاملے میں ذ مے داری کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ یہ وہی میڈیا ہے جس نے نسل پرستانہ اور مہاجرین کے خلاف بیان بازی کو ہوا دے کر آسٹریلیا کے سابق وزیر اعظم جون ہاورڈ کو جتوایا۔ اسی میڈیا نے ملبورن کے مضافات میں بسے محنت کشوں کو افریقی گینگز کہہ کر بد نام کیا۔
آج ساڑھے تین سال گزر جانے کے باوجود گرینفیل ٹاور (Grenfell Tower) لندن میں ہوئی آتشزدگی کے متاثرین بے گھر ہیں اور آج بھی برطانیہ میں محنت کشوں کی اوسط عمر حکمران طبقہ کے مقابلے میں کہیں کم ہے مگر اس سب کے باوجود پورے برطانیہ میں ملکہ کے مرنے پر صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ اگر آج کوئی بادشاہت کے خلاف آواز اٹھائے اور مظاہرہ کرے تو اسے بادشاہت اور ریاست کا پوری طرح وفادار نہ ہونے پر گرفتار کیا جا رہا ہے۔
سوال یہ ہے آخر ملکہ کی موت اور زندگی اتنا اہم مسئلہ کیوں بن گئی ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے اس معاملہ کا بادشاہت کو برقرار رکھنے یا نہ رکھنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دراصل یہ حکمران طبقہ کی جانب سے ایک ایسے معاشی نظام کو دوام بخشنے کی کوششوں کی ہی ایک کڑی ہے جو محنت کشوں کو کچھ نہیں دیتا اور ساتھ ہی اس معاشی نظام میں پنپنے والے اندرونی تضادات اور اختلافات پر پردہ ڈالے رکھنا ہے۔ اس کی ایک مثال ملکہ کے مرنے کے بعد برطانیہ میں ہونے والی مزدوروں کی تمام ہڑتالوں کا منسوخ ہونا ہے یعنی قومی اتحاد نے طبقاتی اتحاد پر غلبہ پا لیا ہے۔
چاہے کتنے ہی نقارے پیٹے جائیں، محفلیں سجائی جائیں اور دن رات ٹسوے بہاے جائیں، اس حقیقت کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا کہ دنیا میں ہر جگہ غربت، عدم مساوات، بے گھر افراد کی تعداد میں اضافہ اور مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسے میں جب یہ معاشی نظام ریاست کی تمام تر کوششوں کے باوجود ٹوٹ پھوٹ کا ہشکار ہے، ایسے میں ملکہ کی موت جیسے واقعات ریاست کو لوگوں کو جذباتی، فکری اور جسمانی طور پر کنٹرول کرنے کا ایک سنہری موقع فراہم کرتے ہیں۔
دنیا بھر میں تمام سرمایہ دارانہ ریاستوں میں سخت ترین جمہوریت مخالف قوانین بنائے اور نافذ کیے جا رہے ہیں کیونکہ لوگوں کو اس (معاشی) نظام کے تابع رکھنے کے لئے اور زیادہ ریاستی جبر کی ضرورت ہے۔
آلدوس ہکسلے (Aldous Huxley) نے میں اپنے شہرہ آفاق ناول ”بریو نیو ورلڈ“ (Brave New World) میں اس صورت حال کو اس طرح بیان کیا ہے کہ ایک حقیقی موثر مطلق العنان ریاست وہ ہو گی جس میں تمام طاقتور سیاسی مالکان اپنے مینیجروں کی فوج کے ذریعے غلاموں کی ایک ایسی آبادی کو بغیر کسی زوروزبردستی سے کنٹرول کریں گے جو (وہ غلاموں کی آبادی) اپنی رضا و خوشی سے اپنی غلامی کو پسند کرے گی۔
غلامی سے یہ محبت ہی ’شعور کاذب‘ کا نچوڑ ہے اور یہ محبت اس وقت تک زندہ رہتی ہے جب تک اس غلامی کا شکار اس وہم میں رہتے ہیں کہ یہ غلامی ان کے لیے فائدہ مند ہے۔
…لیکن یہ دھما چوکڑی ریاست کے مسائل کا حل نہیں کیونکہ ملکہ کی موت سے عوام جس مصنوعی خمار آور سوتے جاگتے جیسی کیفیت میں مبتلا کیے گئے ہیں اس اجتماعی ہسٹیریا اور توجہ کا دورانیہ مختصر ہے۔
اس دیوانے پن کی روٹی اور سرکس کے درمیان بٹی خیالی دنیا میں بھی لوگ بہرحال بے چین اور ناخوش ہی رہتے ہیں۔ ایسے تمام لوگوں کے لئے جو اس بورژوا سرمایہ دارانہ نظام پر ایمان رکھتے ہیں ان کے لیے یہ بری خبر ہے کہ جمہوری آزادی کوئی پتھر میں کھنچی لکیر نہیں جسے مٹایا نہ جا سکے اور نظریات کو کبھی بھی کچرے کی طرح اٹھا کر باہر پھینکا بھی جا سکتا ہے۔
رے بریڈبری (Ray Bradbury) نے اپنے ناول فارن ہائیٹ 451 (Fahrenheit 451) میں مصائب سے بھری ایک ایسی ریاست کا نقشہ کھینچا ہے جہاں خیالات خطرناک قرار دے دیے گئے ہیں اور کسی کے لیے بھی کسی قسم کا خیال (شعور) رکھنا بھی ناممکن ہے۔ ناول میں ’فائر چیف‘کا کردار یہ کہتا ہے ’اگر آپ کسی شخص (عوام) کو سیاسی طور پر ناخوش نہیں کرنا چاہتے ہیں، تو اسے ایسا مشکل سوال مت دیں جس کے ممکنہ طور پر دو جوابات ہو سکتے ہوں۔ اسے ایسا سوال دو جسکا صرف ایک ہی جواب ممکن ہو۔ اور سب سے بہتر یہ ہی ہے کہ اسے کوئی سوال ہی نہ دو‘(یعنی اسے سوچنے کے لیے کوئی مواد اور موقعہ ہی نہ دو)۔
ریاست کو تواس بات کی حکمت واضح نظر آ رہی ہے اور یہ ہی بات محنت کش طبقہ کے لئے بھی سیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔