خبریں/تبصرے

ناروے: ٹونی عثمان کے ترجمہ کردہ ڈرامہ ’تاریک ایام‘ کی تقریب رونمائی

ناروے (جدوجہد رپورٹ) اوسلو میں مقیم اداکار اور ہدایتکار ٹونی عثمان کا ترجمہ کردہ ڈرامہ ”تاریک ایّام“ اب کتاب کی شکل میں بھی دستیاب ہے۔ گزشتہ جمعہ کی شام کتاب کی باقاعدہ تقریب رونمائی کا اہتمام حلقہئ ارباب ذوق ناروے نے کیا۔ کتاب کی اشاعت کچھ عرصہ پہلے ہی ہو چکی تھی مگر کورونا وبا کے سبب تقریب رونمائی پہلے نہ ہو سکی۔

پروگرام کو دلچسپ بنانے کے لئے اسے دو حصوں میں پیش کیا گیا۔ پہلے حصے میں کتاب اور مترجم کے بارے میں مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار اور دوسرے حصے میں جرنلسٹ عطا انصاری نے ٹونی عثمان سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا۔

یہ ڈرامہ عالمی شہرت یافتہ سویڈش مصنف ہینی مانکل نے لکھا اور پناہ گزینوں کو درپیش مصائب کو موضوع بنایا۔ اوسلو سینٹرل لائبریری میں منعقد ہونے والی تقریب میں انٹرویو کے دوران ٹونی عثمان نے بتایا کہ انہوں نے یہ ترجمہ درحقیقت اِس ڈرامے کو صرف اسٹیج کرنے کی غرض سے کیا تھا، اپنے ترجمے کو کتاب کی شکل دینے کا خیال بعد میں آیا۔

اُنہوں نے مزید بتایا کہ کئی برس پہلے وہ خود بھی اس کھیل کا مرکزی کردار ادا کرچکے ہیں، مگر تب یہ کھیل نارویجن زبان میں پیش کیا گیا تھا۔ اُنکی عرصہ دراز سے خواہش تھی کہ اس ڈرامے کو اردو قالب میں ڈھال کر اسٹیج کریں اور ایک تجرباتی بنیاد پر ڈرامے کا اسٹیج بھی کسی عام سے ہال یا تھیٹر میں نہ ہو۔

یاد رہے کہ’’تاریک ایّام“ دو سال پہلے اردو زبان میں ایک پہاڑ کے اندر بنے ہوئے ویران بنکر میں اسٹیج کیا گیا تھا۔ ایسے بنکر دوسری جنگ عظیم کے بعد بمباری سے بچنے کے لئے بنائے گئے تھے مگر ستر برس سے ویران پڑے ہیں۔

ٹونی عثمان نے تقریب میں سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ خستہ حال کشتیوں پر سوار ہو کر یورپ آنے کی کوشش میں ہزاروں پناہ گزینوں کے ڈوب جانے والے واقعات نے ہینی مانکل پر گہرا اثر چھوڑا تھا اور ڈرامے کی کہانی کیونکہ ایک ویران عمارت سے جڑی ہوئی تھی، لہٰذا انہوں نے اسے اسٹیج کرنے کے لئے ایک ویران بنکر کا انتخاب کیا تھا۔ ٹونی عثمان یہ چاہتے تھے کہ ڈرامہ دیکھنے والے پناہ گزینوں پر ٹوٹنے والے مصائب کو محسوس کر سکیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں کہ خوف و وحشت کے عالم میں زندگی کیسی گزاری جاتی ہے۔

تقریب رونمائی میں اردو میگزین کاروان کے ایڈیٹر سید مجاہد علی اور تجزیہ کار ارشد بٹ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ٹونی عثمان دو ثقافتوں اور زبانوں کے درمیان ایک پُل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے یہ سعادت حسن منٹو کے متعدد افسانوں کے ترجمے نارویجن زبان میں کر چکے ہیں۔ پروگرام کی نظامت شاعر آفتاب وڑائچ نے کی اور تقریب کے اختتام پر، سوشل ورکر نثار بھگت نے ٹونی عثمان کو پھولوں کا گلدستہ پیش کیا اور اُنکے جلد ہی پیش کئے جانے والے نئے اسٹیج ڈرامے ”سو فیصد“ پر پیشگی مبارکباد بھی دی۔

Roznama Jeddojehad
+ posts