مظہر آزاد
چند دن قبل ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوا۔ ویڈیو میں مسلح عسکریت پسندوں کو ”ہمیشہ پر امن“ گلگت بلتستان کے بابو سر ٹاپ کے قریب واقع ایک پولو گراؤنڈ میں کھلی کچہری منعقد کرتے اور مقامی میڈیاسے بڑے آسانی کے ساتھ اور آزادانہ طور گفتگو کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ ایک انتہائی تشویش ناک ویڈیوہے لیکن ہنوز قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اس خطرناک واقعے بارے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔
ویڈیو میں موجود بیانیہ بالکل واضح ہے: اس علاقے کے امن، وہاں پنپنے والی سیاحت اور مجموعی طور پر امن کوخطرہ لاحق ہے۔ یہ خطرناک واقعہ شاہراہ قراقرم ایسی مرکزی سڑک کے کنارے وقع پزیر ہو رہا ہے۔ یہی سڑک پاکستان کو چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور کے ذریعے چین سے جوڑتی ہے۔
ویڈیو کے ذریعے منظر عام پر آنے والا شخص کمانڈر حبیب الرحمٰن کے نام سے جانا جاتا ہے جو 10 غیر ملکی کوہ پیماؤں کی ہلاکت، مانسہرہ میں 20 اہل تشیع کے قتل سمیت متعدددہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے جیل میں تھا۔ بعد ازاں یہ ملزم دوستوں کے ہمراہ جیل توڑ کر فرار ہو گیا۔
بی بی سی نے جب سول انتظامیہ سے اس واقعے کی وضاحت کے لئے فون کالزکیں تو کالز کو کو نظر انداز کیاگیا۔ پولیس نے بھی اس واقع پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔
دریں اثنا، ”ہنزہ میٹرز“ نامی کتاب کی رونمائی کی تقریب ”اوپر سے آنے والے دباؤ“ کی وجہ سے منسوخ کر دی گئی۔”ہنزہ میٹرز“ ایک اہم کتاب ہے جس کے مصنف ڈاکٹر ایئر مین کریٹزمین ہیں۔ وہ ایشیائی امور کے ماہر ہیں اور پامیر اور اعلی ایشیائی برادریوں پر ایک اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں۔
”ہنزہ میٹرز“ حال کو ماضی سے مربوط کرنے میں مدد کرتی ہے، ایک ایسا ماضی جس میں اِس خطے کی خود مختار ریاستوں نے جدید ریاستوں کے حکم کے بغیر اپنی خودمختاری کا استعمال کیا اور اپنی ریاستیں قائم کئے رکھیں۔ شاید ریاست پاکستان کی اشرافیہ خود کو ایسی کتابوں کے سامنے خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہے۔ ایسی کتابیں مقامی لوگوں کو اپنی مقامی ثقافت اور تاریخ کے بارے میں سچائی سے آگاہ کرتی ہیں۔
مندرجہ بالا دو واقعات کے دارون ہی یہ بھی اہم پیش رفت مین سٹریم میڈیا سے غائب رہی کہ اِسی گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے حسنین رمل اور منظور پروانہ جیسے پر امن کارکنوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اور انہیں جیل بھیجا گیا۔
گویا مسلح عسکریت پسندوں سے’امن معاہدہ‘ کیا گیا ہے مگر دوسرے سیاسی کارکن ایسے رویّوں کا شکار ہورہے ہیں جیسے بائیں بازو کے بابا جان ہوئے، جنہیں اپنے علاقے کے لوگوں کی نمائندگی کرنے کے جرم میں دس سال تک جیل میں رکھا گیا۔
ایسا لگتاہے کہ ہماری سکیورٹی ایجنسیوں کا سب سے اہم کام کسی کتاب کی تقریب رونمائی کو روکنا ہے نہ کہ اْس دہشت گردی اور دہشت گردوں کو روکنا جس نے ہزاروں افراد کی جان لی۔ عوام اور ریاستوں کو اپنی ترجیحات سے جانا جاتا ہے۔ بظاہرپاکستانی ریاست کی ترجیحات مندرجہ ذیل ہیں: کتاب، عقل اور دلیل کو دبادو، دہشت گردی اور دہشت گردوں کو فروغ دو۔