فیض احمد فیض
(جو امن اور آزادی کی جدو جہد میں کام آئے)
فیض احمد فیض نے اس نظم کو ان نوجوان طالب علموں سے یکجہتی کے لئے منظوم کیا جو شاہ ایران کے خلاف جدوجہد میں شہید ہوئے۔ آج پھر ایرانی طالب علم حتیٰ کی سکول کی طالبات جان ہتھیلی پر رکھے سڑکوں پر نکل آئی ہیں۔ مذہبی جنونیت کی کامیابی کے بعدایرانی ریاست نے ایران کے لوگوں پر علامہ اقبال کو مسلط کیا۔ پاکستانی محنت کش اور انقلابی تحریک کی طرف سے ہم ایرانی عوام کو فیض احمد فیض کی شکل میں یکجہتی کا پیغام بھیج رہے ہیں: مدیر
یہ کون سخی ہیں
جن کے لہو کی
اشرفیاں چھن چھن، چھن چھن،
دھرتی کے پیہم پیاسے
کشکول میں ڈھلتی جاتی ہیں
کشکول کو بھرتی ہیں
یہ کون جواں ہیں ارض عجم
یہ لکھ لٹ
جن کے جسموں کی
بھرپور جوانی کا کندن
یوں خاک میں ریزہ ریزہ ہے
یوں کوچہ کوچہ بکھرا ہے
اے ارض عجم، اے ارض عجم!
کیوں نوچ کے ہنس ہنس پھینک دئے
ان آنکھوں نے اپنے نیلم
ان ہونٹوں نے اپنے مرجاں
ان ہاتھوں کی ”بے کل چاندی
کس کام آئی کس ہاتھ لگی“
اے پوچھنے والے پردیسی
یہ طفل و جواں
اس نور کے نو رس موتی ہیں
اس آگ کی کچی کلیاں ہیں
جس میٹھے نور اور کڑوی آگ
سے ظلم کی اندھی رات میں پھوٹا
صبح بغاوت کا گلشن
اور صبح ہوئی من من، تن تن،
ان جسموں کا چاندی سونا
ان چہروں کے نیلم، مرجاں،
جگ مگ جگ مگ، رخشاں رخشاں
جو دیکھنا چاہے پردیسی
پاس آئے دیکھے جی بھر کر
یہ زیست کی رانی کا جھومر
یہ امن کی دیوی کا کنگن!
(فیض احمد فیض نے اس نظم کو ان نوجوان طالب علموں سے یکجہتی کے لئے منظوم کیا جو شاہ ایران کے خلاف جدوجہد میں شہید ہوئے۔ آج پھر ایرانی طالب علم حتیٰ کی سکول کی طالبات جان ہتھیلی پر رکھے سڑکوں پر نکل آئی ہیں۔ مذہبی جنونیت کی کامیابی کے بعدایرانی ریاست نے ایران کے لوگوں پر علامہ اقبال کو مسلط کیا۔ پاکستانی محنت کش اور انقلابی تحریک کی طرف سے ہم ایرانی عوام کو فیض احمد فیض کی شکل میں یکجہتی کا پیغام بھیج رہے ہیں۔ یہ لازوال نظم معروف گلوکارہ ملکہ پکھراج نے گائی۔ یوٹیوب لنک)