لاہور (جدوجہد رپورٹ) ایران کی عدلیہ کے سربراہ نے ججوں کو حکم دیا ہے کہ وہ احتجاجی تحریک کے اہم عناصر کو سخت سزائیں سنائیں۔ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد احتجاجی تحریک تاحال جاری ہے۔
’الجزیرہ‘ کے مطابق عدلیہ کے سربراہ غلام حسین محسنی ایجی نے بتایا کہ انہوں نے اپنے ججوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ فسادات کے اہم عناصر سے غیر ضروری ہمدردی ظاہر کرنے سے گریز کریں اور کم قصور وار لوگوں کو الگ کرتے ہوئے انہیں سخت سزائیں دی جائیں۔
قبل ازیں انہوں نے ملک بھر کی عدالتوں کو حکم دیا تھا کہ وہ گرفتار افراد کے مقدمات کو تیزی سے نمٹائیں۔ ایران میں جاری یہ مظاہرے ستمبر کے وسط میں 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد شروع ہوئے تھے۔
اس احتجاجی تحریک کو 2019ء کے بعد ایران میں سب سے بڑے احتجاجی مظاہرے قرار دیا جا رہا ہے، جب راشن اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی تھی۔ تاہم مبصرین اس تحریک کو 1979ء کے بعد سب سے پرجوش احتجاجی تحریک اور عورت انقلاب قرار دے رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے وزارت داخلہ میں سکیورٹی اور پولیس کے امور کے نائب ماجد میر احمدی نے متنبہ کیا تھا کہ ’جس کسی کو بھی فسادات کے مقام سے گرفتار کیا گیا ہے، اسے کسی بھی صورت میں اس وقت تک رہا نہیں کیا جائے گا، جب تک ان کے مقدمے کی سماعت مکمل نہیں ہو جاتی۔‘
احتجاج میں شریک ہونے والے درجنوں افراد پر اب تک فرد جرم عائد کی جا چکی ہے۔ ایران بھر میں انٹرنیٹ پر سخت پابندیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم مظاہرین پر بھی مظاہروں کی کال دینے اور احتجاج میں شامل ہونے کی روش سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی بدستور امریکہ اور مغربی ملکوں پر ایران کو غیر مستحکم کرنے کیلئے تحریک کی پشت پناہی کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ انہوں نے ایک اجلاس میں کہا کہ ’امریکہ کی عسکریت پسندی اور پابندیوں میں ناکامی کے بعد امریکہ اور اتحادیوں نے عدم استحکام کی ناکام پالیسی کا سہارا لیا ہے۔‘