پاکستان

عمران خان پر حملہ: عمران کا جوابی حملہ

فاروق سلہریا

گذشتہ روز گوجرانوالہ میں عمران خان پر ہونے والے قاتلانہ حملے نے پاکستانی سیاست میں بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ تا دم تحریر (نصف شب) الزامات اور وضاحتوں کا ایک سلسلہ جاری ہے۔

۱۔ عمران خان کی ترجمانی کرتے ہوئے اسد عمر نے اس حملے کا الزام شہباز شریف، رانا ثنا اللہ اور ’میجرجنرل فیصل نصیر‘ پر لگایا۔ بہ الفاظ دیگر عمران خان نے کھل پر فوج پر الزام لگایا ہے۔ اگر ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم اور ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل بابر افتخار کی پریس کانفرنس پاکستان تحریک انصاف کو چتاؤنی تھی تو عمران خان کا ایک میجر جنرل پر قاتلانہ حملے کا الزام لگانا جوابی حملہ ہے۔ گویا عمران خان نے بھی کھل کر جنگ کا ا علان کر دیا ہے۔

۲۔ واقعہ کے چند گھنٹے بعد تک بہت سی باتیں ابھی واضح نہیں۔ میڈیا کے بعض حصوں میں یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ کہ صرف پستول سے حملہ نہیں ہوا۔ کارتوس بھی چلے ہیں۔ سازش کے بے نقاب ہونے میں، اگر یہ کبھی ہوئی، وقت لگے گا۔ میڈیا میں خوف کے باعث کوئی چینل کڑی سے کڑی ملانے کی کوشش کر رہا ہے نہ اس بات پر بحث کی جا رہی ہے کہ سازش کا کوئی بالکل انوکھا رخ بھی ہو سکتا ہے۔

۳۔ حملہ آور پکڑا گیا۔ اسے کس نے استعمال کیا، یہ جانے کب پتہ چلے لیکن اس کا بیان کئی لحاظ سے اہم ہے۔ اس نے اعترافی بیان میں حملے کے پیچھے مذہبی وجوہات بیان کی ہیں۔ اس کا کہنا کہ اذان کے وقت موسیقی بجانے کی وجہ سے وہ اشتعال میں آیا۔ گو اس کے بیان مین تضاد بھی ہے۔ ایک طرف اس نے کہا کہ عمران خان کا لانگ مارچ شروع ہوا تو ہی اس نے حملے کا فیصلہ کیا۔ اسی سانس میں اس نے کہا کہ یہ فیصلہ اس نے اسی روز صبح کے وقت کیا۔ اس سب سے پریشان کن یہ بات ہے کہ کوئی بھی خونی انسان مذہب کی آڑ لے کر کسی بھی خوفناک اقدام کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

۴۔ کسی سیاسی کارکن پر حملہ پوری سیاست پر حملہ ہوتا ہے۔ عمران خان سے لاکھ اختلافات کے باوجود کسی صورت اور شکل میں ان کے خلاف متشدد کاروائیوں کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ خوش آئند بات ہے کہ اس حملے کی بھرپور مذمت کی گئی ہے۔ پی ڈی ایم سمیت چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔ پاکستانی سیاست اس قدر خون خرابہ دیکھ چکی ہے کہ اب مزید خون خرابے کی گنجائش باقی نہیں۔

۵۔ اس حملے کے بعد سیاسی بحران مزید گہرا ہو گا۔ یہ بحران اس بات کی غمازی ہے کہ موجودہ حکمران طبقہ (تحریک انصاف جس کا ایک حصہ ہے) کسی بھی طرح کی قائدانہ صلاحیت سے عاری ہے۔ نہ اس میں معاشی اہلیت ہے نہ سیاسی۔ سیاست ایک حادثے سے دوسرے حادثے، ایک بحران سے دوسرے بحران، ایک سکینڈل سے دوسرے سکینڈل کا نام بن چکی ہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔