لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے زیر اہتمام ایشین پیپلز موومنٹ برائے قرض و ترقی کے تعاون سے لاہور میں سائیکل ریلی کا اہتمام کیا گیا۔ ریلی کے شرکا نے ماحولیاتی کارکنوں کے ساتھ مل کر حالیہ سیلاب کے تناظر میں پاکستان کیلئے معاوضے کا مطالبہ کیا۔ امیر ملکوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے میں اپنا منصفانہ کردار ادا کریں۔ یہ ریلی آمدہ کوپ 27 کانفرنس کے سامنے مطالبات رکھنے کیلئے منعقد کی گئی تھی۔
سائیکل ریلی کے شرکا نے امیر، صنعتی ممالک کی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر ترقی پذیر ممالک کے لئے موسمیاتی تبدیلی کی تلافی کریں،جو ماحولیاتی تباہی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ تقریب ”پیڈل فار پیپل اینڈ پلینٹ“ چیئرنگ کراس سے لکشمی چوک تک منعقد کی گئی۔
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے فاروق طارق نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ”گلوبل نارتھ کی حکومتوں کی جانب سے ماحول کی مالی ذمہ داریوں سے بچنے کے لئے معمول کی غیر فعالیت، دھوکہ دہی اور ہتھکنڈے انصاف کا سنگین مذاق اور ماحولیاتی اثرات میں شدت کے اس وقت انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیاں ہیں۔“
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کی صائمہ ضیا نے کہا کہ ”وعدوں میں پیشرفت کی کمی نے ہمیں موسمیاتی تباہی کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ ہمارے پاس موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور انسانیت اور سیارے کو بچانے کے لئے بہت کم وقت بچا ہے۔“
ایشین پیپلز موومنٹ آن ڈیبٹ اینڈ ڈیولپمنٹ (اے پی ایم ڈی ڈی) کی کوآرڈینیٹر لیڈی نکپل نے کہا کہ ”اس سال، دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لاکھوں گھروں کو نقصان پہنچا ہے یا بہہ گے ہیں۔ اسکی وجہ سے ملازمتوں اور ذریعہ معاش میں خلل پڑا ہے یا مکمل طور پر ختم ہو گے ہیں۔ اس ماحولیاتی تبدیلی نے فصلوں کو بھی تباہ کر دیا ہے، جس کی وجہ سے خوراک کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ اس تباہی نے بہت سے لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے جبکہ بہت سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ایشیا کے خطے میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق آفات کے بعد پاکستان، بنگلہ دیش اور فلپائن کے لوگوں کی حالت زار ڈرامائی اور المناک طور پر موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے سنجیدگی کا تقاضہ کرتی ہے۔ ہم امیر، صنعتی ممالک کی حکومتوں، ان کے اشرافیہ اور بڑے کارپوریشنوں، جو موسمیاتی بحران کے سب سے بڑے ذمہ داری ہیں، سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ماحولیاتی تباہی کے قرض کو لوگوں اور غریب ممالک کو ادا کرو، ان غریب ممالک کا ماحولیاتی تبدیلی میں کم از کم حصہ ہے لیکن اس کے سب سے بڑے اثرات ان کو برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی مالی ذمہ داریوں کی تکمیل ان تلافیوں کا حصہ ہے۔“
انکا کہنا تھا کہ ”2009ء میں امیر ممالک نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ترقی پذیر ممالک میں ماحولیاتی ایکشن کو فنڈ دینے کے لئے 2020ء تک ماحولیاتی مالی اعانت میں مشترکہ طور پر 100 بلین ڈالر سالانہ اکھٹا کریں گے۔ اس بات پر غور کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ نام نہاد ماحولیاتی فنڈ بہت کم ہے کیونکہ 2030ء تک متوقع ماحولیاتی فنانس کم از کم $ 11 ٹریلین ہے۔ تاہم امیر ممالک اس مضحکہ خیز حد تک کم رقم کا اپنا وعدہ بھی پورا نہیں کر رہے ہیں۔ وہ فوسل فیول کے لئے سبسڈی پر کئی گنا زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔ زندگی کے بنیادی ڈھانچے، ماحولیاتی نظام اور معیشتوں کو پہنچنے والے نقصان کو پورا کرنے کے لئے موسمیاتی تبدیلی کی مالی اعانت فراہم کرنے سے بھی انکار کر رہے ہیں۔“
کوپ 27 موسمیاتی تبدیلی سے متعلق سب سے بڑی اور اہم سالانہ کانفرنس ہے۔ اس سال 27 ویں سالانہ سربراہی اجلاس یا کوپ 27 کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ممالک نے گزشتہ سال کے سربراہی اجلاس میں اس سال مضبوط وعدوں کی فراہمی پر اتفاق کیا تھا، بشمول زیادہ اہداف کے ساتھ تازہ ترین قومی منصوبوں کو پیش کرنے کا کہا تھا۔ تاہم 193 میں سے صرف 23 ممالک نے اب تک اقوام متحدہ میں اپنے منصوبے پیش کیے ہیں۔ اس سال کے سربراہی اجلاس میں کچھ نکات کے بارے میں بھی بات چیت ہو گی، جو گلاسگو میں کوپ 26 کے بعد کا نتیجہ رہے۔
یاد رہے کہ یہ اس سال کا چوتھا پیڈل فار پیپل اینڈ پلینٹ سائیکل مارچ ہے۔ پہلا 24 اپریل کو 9 ممالک میں، دوسرا 5 جون کو 11 ممالک میں اور تیسرا 2 اکتوبر کو 8 ممالک میں منعقد ہوا تھا۔