یعقوب بلوچ
پاکستان کا جنوب مغربی صوبہ بلوچستان اپنے شروع سے ہی مسائل کا شکار رہا ہے۔ یہ صوبہ تقریباً تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ دسیوں ہزار غریب خاندان بلوچستان کی قاتل شاہراہوں پر اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں۔ صوبے میں سڑکوں پر ہونے والے حادثات اچانک نہیں ہوتے، سڑکوں پر خونریزی کی یہ طویل تاریخ رہی ہے۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کی تعداد صوبے میں دہشت گردی کے نقصانات سے کہیں زیادہ ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ بلوچستان کی قاتل شاہراہوں کی وجہ سے ہم نے ان گنت بڑی شخصیات کھو دی ہیں۔ (مرحوم) در جان پیرکانی اس سلسلے میں یہاں ذکر کرنے کے مستحق ہیں۔ انہوں نے بے مثال خدمات انجام دیں۔ وہ ایسے شخص تھے جنہوں نے نہ صرف اپنی گفتگو کے ذریعے سے ہمیں محظوظ کیا بلکہ اپنی علم کو پھیلانے کی صلاحیتوں سے بہت سے تاریک کمروں کو بھی روشن کیا۔ ان کا نقصان پورے صوبے کیلئے بہت بڑا دھچکا اور بے مثال نقصان تھا۔
اسسٹنٹ کمشنر جمیل بلوچ بھی انہی قاتل شاہراہوں کی وجہ سے اپنی قیمتی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اتنے بڑے ہیرو سے معاشرہ اتنی آسانی سے کیسے محروم کیا جا سکتا ہے۔ الفاظ اس عظیم انسان کی خدمات کو بیان نہیں کر سکتے۔ تعلیمی میدان میں انہوں نے صوبے بھر میں ناقابل فراموش خدمات سرانجام دیں۔ اس نے بہت سی شمعیں جلائیں اور بے شمار غریب طلبہ کو خوشحال کیا۔ اخبار فروش کے بیٹے جمیل بلوچ بلوچستان ضرورت مند لوگوں کیلئے طاقت کا مینار ثابت ہوئے۔ تعلیم کے میدان میں ان کی انفرادیت ہمارے تصورات سے باہر ہے۔ انہوں نے خاموشی سے بہت سے اعزازت حاصل کئے۔ وہ ہمارے ان گمنام ہیروز میں سے ایک تھے، جنہوں نے ہمارے صوبہ میں درسگاہ کیلئے بہت قربانیاں دیں۔ انہوں نے 2018ء میں صوبائی سول سروسز میں کوالیفائی کرنے کے بعد اسسٹنٹ کمشنر کا عہدہ حاصل کیا۔ چند روز قبل ایک سڑک حادثے میں انہوں نے آخری سانس لی۔ انکے عزیزو اقارب کے مطابق انہوں نے ایک موٹر سائیکل سوار کو بچانے کی خاطر اپنے آپ کو قربان کر دیا۔
ہم اپنی ہی لاپرواہی کی وجہ سے معاشرے کے بہترین دماغوں کو کھوتے جا رہے ہیں۔ بلوچستان میں، قاتل شاہراہوں کے پیچھے اسباب بے شمار ہیں، جو زیادہ تر انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر سڑک کی خراب انجینئرنگ اور روڈ انفراسٹرکچر کی کمی۔ اس کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ یقینی طور پر پالیسی سازوں کو،جواپنی ذمہ داریوں اور ناکامیوں کو چھپانے کے لیے عموماً ڈرائیوروں کو اوور سپیڈنگ میں ملوث ہونے کے پیچھے چھپتے ہیں۔ اگر کوئی ضرورت سے زیادہ کام کرتا ہے تو پھر حکومت ہی اس کے خلاف سخت کارروائی کرتی ہے۔ کیا حکومت نے کبھی اس سلسلے میں کچھ کیا؟ بالکل بھی نہیں! ہماری ترجیحات ان سوالوں کے گرد گھومتی ہیں کہ اگلا وزیر اعظم کون ہو گا؟ دھرنے کی اگلی تاریخ کیا ہے؟ اور حکومتوں کا تختہ الٹنا اور گرانا ہے۔ کیا ہم عوامی فلاح و بہبود کے لیے کچھ کر رہے ہیں؟ سیاہ آسمان پر منڈلاتا بحران اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہم اپنے عظیم ہیروز کو بچانے میں ناکام رہے ہیں۔
حالیہ رپورٹس کی روشنی میں صرف بلوچستان میں گزشتہ 18 ماہ کے دوران 12600 سے زائد ٹریفک حادثات ہوئے ہیں۔ اسی سلسلے میں اکتوبر 2019ء سے بلوچستان کی اہم شاہراہوں پر ہونے والے حادثات میں 275 سے زائد افراد ہلاک اور 16,000 سے زائد زخمی ہوئے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے تناظر میں، حکومت کی جانب سے صوبہ میں انفراسٹرکچر میں انقلاب لانے کے وعدے بڑی حد تک ناکام ہو چکے ہیں۔ مذکورہ وعدوں کی جھلک ملک کے دیگر صوبوں میں ہی دیکھی جاسکتی ہے۔ صوبے کی سب سے مصروف شاہراہ N25 نیشنل ہائی وے ہے،جس کی لمبائی تقریباً 850 کلومیٹر ہے۔ تاہم کوئٹہ سے کراچی تک اسے مکمل طور پر نقصان پہنچا ہے۔ حکومت کا ناروا رویہ معصوم لوگوں کی زندگی اجیرن کر رہا ہے لہٰذا بلوچستان کے غریب باشندوں کے مستقبل کو بچانے کے لیے حکومت کو اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ اسے غریب لوگوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے عوام پر مبنی پالیسیاں بنانا ہوں گی۔ حکومت کو حفاظتی اقدامات کرنے چاہئیں۔ اگر مذکورہ بالا تبدیلیاں نہ کی گئیں تو آنے والے دنوں میں بہت سے معصوم لوگوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔